عادی

جمعہ، 4 اکتوبر، 2013


یہ اس زمانے کی بات ہے جب میں گریجو ایشن کرنے کے لئیے لاہور میں کرائے کے ایک پورشن میں کئی دوسرے طلباء کے ساتھ مل کر رہا کرتا تھا، وہیں مری دوستی بہاولنگر کے ایک دور دراز کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان خلیق کے ساتھ ہوگئی جو اسم بامسمیٰ تھا۔

اسکی روشن روشن آنکھوں میں مستقبل کے خواب جھلملاتے رہتے تھے اور اکثر مجھے بتایا کرتا کہ وہاں گاؤں میں کسی قدر مشکل کے ساتھ اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ گھر والے خود روکھی سوکھی کھا کر اسکی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ اسکی 3 جوان بہنوں کا بوجھ اتارا جاسکے اور انکی گروی رکھی 2 ایکڑ زمین بھی واپس لی جاسکے۔

ان خوابوں کے عین بیچوں بیچ رانو نام کی ایک معصوم سی لڑکی بھی کھڑی مسکراتی دکھائی دیتی جو خلیق کی منگیتر تھی اور اچھے دنوں کی آس میں ایک ایک کرکے دن گزار رہی تھی۔

خدا خدا کرکے گریجوایشن مکمل ہوئی تو دیگر طلباء تو اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن میں اور خلیق دونوں لاہور میں ہی رہ گئے تاکہ کسی اچھی سی نوکری کو اپنی شکل دکھائیں تاکہ وہ فوری طور پر ہمیں پسند کرلے مگر جب باہر کی دنیا میں نکلے تو پتہ چلا کہ جاب مارکیٹ میں ہم سے بھی بہتر خام مال موجود ہے لیکن اسکی کھپت نہیں ہے۔

چند ہی دنوں میں حقیقت کے عفریت نے اپنا خوفناک چہرہ دکھا دیا، اول تو کوئی جاب موجود نہیں تھی اور اگر تھی تو ہمارے پاس اسے خریدنے کے لیئے رقم موجود نہیں تھی۔ میں نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ گھر کا ایک ایک چکر لگا کر انہیں صورت حال سے آگاہ کیا جائے تاکہ اگر وہ پیسوں کا انتظام کرسکتے ہیں تو پھر ہمارے لیئے بھی کسی سرکاری محکمے میں جاب نکل سکتی ہے مگر خلیق نے اس تجویز کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسکے گھر والوں کے پاس کچھ بھی نہیں، میں انکی آس اور امید کو قائم رہنے دینا چاہتا ہوں۔

ہم دونوں مہینوں جوتیاں چٹخاتے رہے، لاہور کی سڑکوں کا کئی بار سروے مکمل کرنے کے بعد ہر شام بوجھل دل اور تھکے قدموں کے ساتھ واپس آکر اپنے اپنے بستر پر گر جاتے۔
ایک دن میں نے خلیق سے پوچھا کہ یار میں سوچتا ہوں کہ قدرت نے ہمیں ایک دوسرے سے ملایا ہے، اگر ہم ایک دوسرے سے نہ ملے ہوتے تو کیا رہتا؟
خلیق نے جل کر جواب دیا،،،!
تب ہم دونوں علیحدہ علیحدہ ذلیل و خوار ہورہے ہوتے،
یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی اور یوں اس بات کو مذاق میں ٹال دیا۔

ایک دن نہ جانے ہمیں کیا سوجھی کہ ایک فٹ پاتھ پر بیٹھے نجومی کو اپنے ہاتھ دکھائے اور ان سے مستقبل کا حال پوچھا، انہوں کچھ دیر تک ہم دونوں کے ہاتھوں کا بغور معائنہ کیا اور پھر فرمانےنے لگے کہ تم دونوں کی قسمت حیرت انگیز حد تک ایک دوسرے سے ملتی ہے،
تمہارے صرف 5 سال مشکل ہیں انہیں کسی نہ کسی طرح گذار لو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔

ہم دونوں بہت خوش ہوئے اور نجومی سے سوال کیا کہ 5 سال کے بعد ہمارے حالات بدل جائیں گے نا؟

نہیں بیٹا،،،، نجومی نے تاسف سے جواب دیا،،

اسکے بعد تم اس قسم کے حالات کے عادی ہو جاؤ گے،

آج کئی دہائیوں کے بعد اس نجومی کی بات یاد آتی ہے تو میں گہری سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ 67 سال تک حکمرانوں کے ٹھڈے کھانے کے بعد یہ قوم واقعی اس بات کی عادی ہوچکی ہے اور اب حکمران طبقے کی طرف سے آنے والی ہر آفت کو بھی آسمانی آفات میں شمار کرلیتی ہے۔