جمعہ، 13 دسمبر، 2013
بہت سے فیلسوف حضرات ان انتخابات کو فری ایڈ فیئر قرار دیتے ہیں، خود میرا بھی یہی خیال ہے مگر ایسے فری اینڈ فیئر الیکشن کس کام کے جب انکے نتائج پر عملدرآمد ہی نہیں کرنا؟
بعد ازاں شیخ مجیب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا گیا، کیونکہ اس سے الیکشن جیتنے کا جرم سرزد ہوچکا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جرنیلوں کے دباؤ میں آنے کو تیار نہیں تھا، مشرقی پاکستان کی ایک نشست چھوڑ کر باقی تمام کی تمام شیخ مجیب نے جیت لی تھیں اس لیئے وزارت بنانا اور صدر پاکستان منتخب کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس تھا جسے اسٹیبلسمنٹ نے تسلیم نہیں کیا بلکہ ایک بے جا ضد کا سہارا لیا جس کی بدولت بنگالیوں میں مزاحمت کا رجحان پیدا ہوا۔
ہم ذوالفقار علی بھٹو کو المیہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مغربی پاکستان کے تمام سیاسی لیڈر بنگالیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ مشرقی پاکستان کے ہوتے ہوئے یہاں کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی دال گلنے والی نہیں تھی، عوامی لیگ بلاشبہ ایک عوامی پارٹی تھی اور آپکو اس پارٹی میں مڈل کلاسیوں کی بالادستی دکھائی دے گی جسکی وجہ سے انہیں زبردستی پاکستان سے جدا کردیا گیا،،، مگر اس قدر صفائی کے ساتھ کہ سارا الزام فوج نے اپنے اورپر لے لیا۔
مشرقی پاکستان کے الگ ہوتے ہی یہاں کے جاگیرداروں، گدی نشینوں، سرداروں اور نوابوں کی لاٹری نکل آئی اور وہ آکٹوپس اور مردار خور گِدھوں کی طرح بچے کھچے پاکستان پر اپنا شکنجہ کس کے بیٹھ گئے۔
جب مجیب کو جیل میں ڈالا گیا تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پرانے طریقہء واردات پر عمل کرتے ہوئے (آج انتے سال اور ایک عظیم سانحہ گزرنے کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کا یہی وطیرہ ہے) عوامی لیگ کے کارکنوں پر بھی عرصہء حیات تنگ کردیا۔ ایسے وقت میں اندرا گاندھی کو موقع غنیمت لگا اور اس نے عوامی لیگ کے ہاکس کے ساتھ معاملات طے کرکے انہیں مکتی باہنی کے نام سے نہ صرف منظم کیا بلکہ انکی تربیت بھی کی اور ان میں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹ بھی داخل کردئیے جو کہ انڈین آرمی کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین تھے۔
جب مشرقی پاکستان میں گوریلا وار شروع ہوئی تب فوج کو اندازہ ہوا کہ اس قسم کی جنگ لڑنا انکے بس سے باہر ہے کیونکہ ایک طرف تو مقامی آبادی کی اکچریت انکے خلاف ہوچکی ہے تو دوسری طرف ریگولر آرمی اور چھاپہ مار فوج کی تربیت میں بہت فرق ہوا کرتا ہے اور یقینی طور پر اس قسم کی جنگ میں گوریلا وار کے تربیت یافتہ لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں، ایسے میں فوجی جرنیلوں نے ہٹ دھرمی چھوڑ کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے جماعت اسلامی کے ''الشمس'' اور ''البدر'' کے نوجوانوں کو استعمال کیا،
جماعت اسلامی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو اس نے ہمیشہ جرنیلوں کی ''خدمات'' سرانجام دی ہیں، اس دور میں بھی جماعت اسلامی نے رائے عامہ سے صرف نظر کرتے ہوئے اقتدار کے بھوکے جرنیل کا ساتھ دیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ایسے وقت میں جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی اور یحیٰ خان پر سیاسی دباؤ ڈالا جاتا کہ عوام کے فیصلے کے سامنے گردن جھکا دے مگر افسوس کہ اس نے اقتدار کے پجاریوں کا ساتھ دیکر متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی،
اس دور میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والوں کو آج وہاں ایک غدار کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، ملا عبدالقادر کی سزائے موت اور دیگر لوگوں پر چلائے جانے والے مقدمات اسی چپقلش کا شاخسانہ ہیں،، مجھے ملا عبدالقادر اور انکے ورثاء سے ہمدردی ہے اور اب اتنے سال گزر جانے کے بعد اس قسم کی چیزیں محض انتقامی کاروائی ہی کہلا سکتی ہیں،، مگر یہ کہنا کہ جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی جنگ لڑی تو میں معذرت چاہتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں تھا بلکہ اس جماعت نے جرنیلوں کا ساتھ دیکر پاکستان توڑنے کی جنگ لڑی اور اس میں کامیاب رہی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں