جمعرات، 24 اکتوبر، 2013
فواد ایک بہت بڑے سپر سٹور میں بطور کیشئیر ملازم تھا جہاں اچھی خاصی سیل ہوا کرتی تھی مگر ملازمین کی تنخواہیں بس ایسی ہی تھیں کہ جسم و جان کا ناطہ ٹوٹنے نہ پائے۔ ایک حد تک آسودگی تھی کہ چلو بے روزگاری کا عذاب تو ان پر مسلط نہیں تھا جو آج کے 95٪ ڈگری ہولڈرز کا مقدر بن چکا ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے گمنام خطوط کے ذریعے مالکان تک متواتر اسکی شکایات پہنچ رہی تھیں جن کے مطابق فواد کافی عرصہ سے سٹور میں غبن کا مرتکب ہورہا تھا اور بڑی چالاکی کے ساتھ اپنے جرم کو چھپانے میں کامیاب تھا۔ پہلے پہل تو مالکان نے ان خطوط کو اہمیت نہیں دی مگر کب تک؟
آخر کار آڈٹ ٹیم بھجوئی گئی جس نے واپسی پر یہ رپورٹ دی کی تمام شکایات سرے سے غلط ہیں اور فواد ایک ایماندار اور محنتی انسان ہے۔
خطوط تھے کہ متواتر چلے آرہے تھے جن میں مالکان کو متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے ہوش کے ناخن نہ لیئے تو ایک دن فواد سٹور کو لوٹ کر کنگال کردے گا۔ اس شخص کی تعلیمی قابلیت بھی اس سٹور میں کام کرنے والوں سے زیادہ ہے چناجہ وہ اکاؤنٹس میں گڑبڑ کرنے کے تمام طور طریقوں سے واقفیت رکھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنا دھندہ نہائت ہی کامیابی سے جاری رکھا ہوا ہے ، اپنی اسی صلاحیت کے بل بوتے پر اس نے آڈٹ ٹیم کو بھی کامیابی کے ساتھ بے وقوف بنایا ہے۔
اب تو مالکان کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے اور انہوں نے اوپر تلے مزید تین آڈٹ ٹیمیں روانہ کیں مگر تینوں نے ایک ہی جواب لکھا کہ یہ شخص انتہائی ایماندار اور اپنے کام سے کام رکھنے والا شخص ہے، اسکی تعلیمی قابلیت بھی سب سے زیادہ ہے اور اور اسکا اکیڈمک ریکارڈ بھی انتہائی شاندار ہے۔ اس پر لگائے گئے تمام الزامات بے بنیاد ہیں اور لگتا ہے کہ اسکا کوئی ساتھی ملازم اس سے جیلس ہے ورنہ فواد انتہائی کام کا بندہ ہے۔
سپر سٹور کے تینوں مالکان کانفرنس روم میں بیٹھے تھے اور فواد انکے سامنے موجود تھا،
ہاں بھئی فواد کیا بات ہے؟
سر یہ میرا استعفیٰ ہے اور میں اب میں مزید آپکی ملازمت نہیں کرسکتا۔
مگر کیوں؟
دیکھیں سر، میں نے آپکے ادارے میں 10 سال تک پوری ایمانداری اور محنت سے کام کیا، اس دوران مجھے ایک دو جگہ سے اچھی آفرز بھی ملیں مگر میں نے اس ادارے کو چھوڑ کے جانا مناسب نہیں سمجھا جس نے مجھے اس وقت ملازمت دی جب میرے گھر میں بھوک اور افلاس نے ڈیرے ڈال دئیے تھے مگر سر، اب یہ ممکن نہیں رہا، میری بیوی ہے، بچے ہیں ، اسکے علاوہ شہر میں بہت سے لوگ مجھے جانتے ہیں۔ آج میری ایمانداری پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں، میں اپنے ساتھی ورکرز کے ساتھ بیٹھ کر کام نہیں کرسکتا سر،،
امید ہے کہ آپ میرا مسئلہ سمجھ جائیں گے۔
! چند لمحے توقف کے بعد سٹور کا مینجنگ ڈائریکٹر بولا
مسٹر فواد آپکے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ محض ایک غلط فہمی کا نتیجہ تھا لیکن پھر بھی ہم اس بات پر اپنے آپ کو قصور وار سمجھتے ہیں اور آپ جیسے محنتی اور ایماندار انسان کو کھونا نہیں چاہتے۔ آپ کی ذات پر جو دھبہ لگا ہے اسے صاف کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے اس لیئے ہم آج سے آپ کو اسی سٹور کا جنرل مینجر بنا رہے ہیں، آپ کی تنخواہ 30 ہزار سے بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ روپے ہوجائے گی اور اسکے ساتھ ہی کوٹھی اور کار کمپنی کی طرف سے ملے گی جسکا پٹرول کا خرچہ بھی کمپنی کے ذمہ ہوگا۔
میں نے گھر میں داخل ہوتے ہی زور دار نعرہ لگایا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ میں اپنی ایمانداری اور محنت کی بدولت آج سٹور کا جنرل مینجر بن گیا ہوں۔
اب رہنے بھی دو ،،،،
ایمانداری اور محنت تو محض ایک ڈھکوسلہ ہے، اگر میں تمہاری کمپنی کے مالکان کو گمنام خطوط نہ لکھتی تو انہیں کبھی علم نہ ہوپاتا کہ انکی کمپنی میں کوئی فواد نام کا ''ایمان دار'' کیشیئر بھی کام کرتا ہے۔
میں حیران ہو کر اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا،
سچ ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں