فیصلے کی گھڑی

ہفتہ، 5 اکتوبر، 2013


مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا جب اس نے میرے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ اتنا معصوم اور بھولا بھالا بچہ جس نے ابھی زندگی کی صرف 19 بہاریں دیکھ رکھی تھیں، اتنا سفاک قاتل کیسے ہو سکتا ہے؟
مگر یہ ایک حقیقت تھی اسکا چہرہ اسکے جرم کی چغلی کھا رہا تھا ، میں نے آصف کو کبھی اس روپ میں دیکھنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا مگر حقائق کی دنیا بڑی تلخ ہوا کرتی ہے، مجھے اور میرے شوہر کو بالآخر اس حقیقت کا سامنا کرنا ہی تھا۔

گذشتہ کچھ دنوں سے آصف کی صحت مسلسل گرتی چلی جارہی تھی خاص طور پر جب سے اس کے بچپن کے دوست انیس کا قتل ہوا تب سے اس کا کھانا پینا تقریباً چھوٹ گیا تھا، ہم نے اسے معمول کی بات سمجھتے ہوئے پہلے تو نطر انداز کیا اور پھر اسے سمجھایا کہ بیٹا جانے والے چلے جاتے ہیں لیکن ہمیں اس دنیا میں اپنا رول نبھانے کی خاطر جینا پڑتا ہے، مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مرتا میرے بچے،،،
تم اپنے آپ کو سنبھالو اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرو۔

ایک رات میں اسکے کمرے میں دودھ کا گلاس لے کر گئی تو میں نے دیکھا کہ وہ خواب کے عالم میں کسی سے باتیں کررہا تھا،، انیس،،،! مجھے معاف کردو میرے یار،،
میں رقابت میں اندھا ہوگیا تھا، ایک تو تم ہر مرتبہ مجھ سے زیادہ نمبر لے جاتے تھے اور پھر میری پسند اریبہ بھی تمہاری محبت کا دم بھرنے لگی تھی،، اسے تمہارے ساتھ دیکھ کر میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا اور ایک دن تمہیں اکیلا پاکر سر میں گولی مار دی،،

اگلے دن ناشتے کے بعد جب میرے شوہر آفس چلے گئے تو میں نے آصف کو اپنے پاس بٹھایا اور بڑے پیار سے انیس والے واقعے کے بارے میں دریافت کیا،
اسے تو شائد پھٹ پڑنے کا بہانہ درکار تھا، وہ زور زور سے رونے لگا اور روتے روتے کہا کہ اب میں اپنی روح پر مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، میں نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائی جیسے دوست کو ماردیا،، اب اسکی روح مجھے چین نہیں لینے دیتی۔
ماما،
کسی طرح اسکی روح کو سمجھائیں کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اب میرا پیچھا چھوڑ دے،

شام کو میرے شوہر آئے تو میں نے انہیں صورتحال سے آگاہ کیا، انہوں نے بڑے تحمل کے ساتھ میری بات سنی اور گہری سوچ میں ڈوب گئے، آخر کار وہ کہنے لگے کہ ابھی تک یہ بات کسی کو نہیں معلوم اس لیئے اگر تم چاہو تو ہم خاموش رہ کر اپنے بیٹے کی جان بچا سکتے ہیں، ایک نہ ایک دن وہ اس نفسیاتی دباؤ سے بھی نکل ہی آئے گا مگر چونکہ تم ایک ماں ہو اس لیئے یہ فیصلہ تمہیں خود کرنا ہے، آج کی رات خوب سوچ لو اور کل صبح 8 بجے مجھے بتا دینا کہ تمہارا فیصلہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ بیڈ روم سے نکل کر اپنے اسٹڈی روم میں چلے گئے۔

یہ ایک عجیب رات تھی، فیصلے کی رات جس میں مجھے اپنے بیٹے کی زندگی یا پھر اس سے جدائی کا فیصلہ کرنا تھا،
قسمت نے آج ایک ماں کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو پکڑا دیا تھا،
اس رات نے
ہم سب کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا، کبھی امید کے جگنو جگمگانے لگتے تو کبھی اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا، امید و بیم کی ایک کیفیت طاری تھی اور میں سوچ سوچ کر نیم پاگل ہونے کو تھی۔

آبا نجمہ ہمارے پڑوس میں ہی رہتی تھیں جن کے شوہر کا انتقال 3 برس پہلے ہوچکا تھا، اب انکی زندگی کا محور صرف اور صرف انیس ہی تھا جسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھیں۔ جی ہاں وہی انیس جو میرے آصف کا دوست تھا، انیس ایک بہت ہی پیارا بچہ تھا جو نہ صرف پڑھائی میں ذہین تھا بلکہ اپنے کالج کی کرکٹ ٹیم کا کیپٹن بھی تھا، اسکے علاوہ اتھلیٹکس کے مقابلوں میں بھی کئی انعامات اور ٹرافیاں اسکے کمرے میں سجی ہوئی تھیں۔


ادھر میرے سامنے اپنے بیٹے کا خیال بھی تھا کہ پتہ نہیں عدالت اسے سزائے موت دیتی ہے یا پھر عمر قید؟
لیکن دونوں صورتوں میں ہم اپنے اکلوتے بیٹے سے محروم ہوجاتے، ہماری زندگی کا مقصد ہی گویا ختم ہو کر رہ جاتا، آپا نجمہ تو جیسے تیسے زندگی گزار ہی رہی ہیں مگر ہم اپنے بیٹے کے بغیر کس طرح زندگی گزار پائیں گے؟

انہی سوچوں میں غلطاں تھی کہ میری نظر سامنے والے گھر پر پڑی جہاں نجمہ آپا نصف رات کو جاگ رہی تھیں اور انکی آنکھوں سے بہنے والے آنسو مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے، کچھ دیر تو میں انکی گریہ و زاری دیکھتی رہی اور پھر گھبرا کر اپنی گھڑکی بند کردی۔

اگلےدن 8 بجے تک میں ایک فیصلے تک پہنچ چکی تھی، چنانچہ اپنے شوہر سے کہا کہ وہ
پولیس کو فون کردیں۔
جب پولیس آصف کو پکڑ کر لے گئی تو ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔