راست باز

پیر، 7 اکتوبر، 2013


میں اس اہم مقدمے کا وکیل صفائی تھا اس لیئے معزز جج صاحب اور جیوری کو متاثر کرنے کے لیئے پہلا ڈائیلاگ مارا۔
میں اس معزز عدالت کے سامنے اس شہر کی سب سے باخبر، راست گو اور معزز بزرگ خاتون کو بطور گواہ پیش کرنا چاہوں گا، میری درخواست ہے کہ محترمہ ''زبیدہ آپا'' وٹنیس باکس میں تشریف لے آئیں۔

جس طرح کسی زمانے میں محلوں اور شہروں میں بی جمالو، پھپھے کٹنی اور جانو کپتی ٹائپ کی بڑھیائیں ہوا کرتی تھیں کچھ اسی قسم کا کردار ہماری زبیدہ آپا بھی تھیں جو ان مشہور زمانہ کرداروں کا لیٹیسٹ ایڈیشن قرار دی جا سکتی ہیں۔

کاروائی کا آغاز ہوا تو میں نے رسمی طور پر معزز گواہ سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے جانتی ہیں؟

تمہیں کون نہیں جانتا لفنگے؟
تم تو اسکول کے زمانے سے ہی انتہائی بدقماش اور لوفر تھے، لوگوں کے ہاتھوں سے چیزیں چھین کر بھاگ جانا تمہارا محبوب مشغلہ تھا، جوانی میں تم قصبے کی ہر لڑکی پر مر مٹنے کو تیار رہتے تھے، اور تو اور، میں تمہاری ماں کی عمر کی ہوں مگر مجھ پر ڈورے ڈالنے سے بھی باز نہیں آئے۔

یہ سن کر میری سٹی گم ہوگئی، مقدمہ گیا بھاڑ میں، یہاں تو میری ری سہی عزت کا کچرا ہوا جارہا تھا چنانچہ میں نے بدحواسی کے عالم میں کہا،،
اچھا ٹھیک ہے،
کیا آپ اسے جانتی ہیں؟
میں نے وکیل استغاثہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،

یہ تو تم سے بھی بڑا فراڈیہ ہے، اس سے بڑا اٹھائی گیرا میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

تمہیں یاد نہیں کہ تماری ناک اسی نے مکا مار کر ''پھینی'' کی تھی؟
تمہارے دو دانت بھی توڑ دئیے تھے؟
مگر تم نے بھی ساری زیادتیوں کا زبردست بدلہ لیا ہے،
آج کل تم اسکی بیوی کے ساتھ خوب گلچھرے اڑاتے پھر رہے ہو،

اب تو جج صاحب کی قوت برداشت بھی جواب دے گئی اور انہوں نے فوری طور پر مقدمے کی کاروائی 15 منٹ کے لیئے روک کر مجھے اپنے چیمبر میں طلب کرلیا،

چیمبر میں پہنچا تو جج صاحب نے ایک قہر آلود نگاہ مجھ پر ڈالی اور بولے، یہ کیا ہورہا ہے وکیل صاحب؟
آپکو پورے شہر میں یہی ایک ''معزز'' گواہ ملی تھی؟

وہ سر،،،،،میں منمنایا

یہ سر سر بند کرو اور میرے بندھے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھو،
تمہیں اللہ کا واسطہ اس شیطان کی خالہ سے میرے بارے میں کچھ مت پوچھنا۔