جنت کی حور

بدھ، 8 جنوری، 2014


میری شامتِ اعمال کہ آج مرزا صاحب صبح ہی صبح نازل ہوگئے۔
آپ تو جانتے ہیں کہ مرزا صاحب ہمارے دوست تو ہیں لیکن اچھے وقت کے نہیں بلکہ مشکل وقت کے دوستوں میں انکا شمار ہوتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ وہ کبھی میری مشکل میں کام آئے ہوں البتہ انکی مشکلات کو سلجھاتے سلجھاتے میں خود اچھا خاصہ عقل مند بنتا جارہا ہوں، اگرچہ میرے گھر والوں سمیت کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں آتا۔

بہر حال مرزا صاحب نے اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یار اب بہت ہو گئی، کسی طرح اس منحوس اور بدتہذیب عورت سے جان چھڑانے کا کوئی طریقہ بتاؤ۔
ارے مرزا صاحب کس منحوس عورت کی بات کررہے ہیں؟ ،،،
کوئی لڑکی وڑکی تو نہیں پھانس لی اس عمر میں؟

ارے تم بھی نرے گھامڑ ہو، مرزا صاحب نے غراتے ہوئے فرمایا،
کوئی لڑکی پھانسی ہوتی تو اسے منحوس کا لقب دیتا؟،،،
اسے تو چندے آفتاب، چندے ماہتاب، جنت کی حور، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور کہتا، میں تو اس خبطی بڑھیا کی بات کررہا ہوں جس نے بچھلے 30 سال سے میری زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔

ارے یار مرزا، جس عورت نے اپنی زندگی کے 30 قیمتی برس تم جیسے کمینے اور گھٹیا انسان کے ساتھ گزار دئیے اسکا شکرگزار ہونے کی بجائے اس سے جان چھرانا چاہتے ہو؟
کچھ تو شرم کرو یار،

مرزا صاحب کو تاؤ آگیا اور مجھے بے نقط سنانے لگے، مگر کچھ دیر کے بعد جب انکا غصہ کچھ کم ہوا تو میں نے عرض کی کہ مرزا جی،،،،
کبھی بھابی کو بھی چندے آفتاب اور جنت کی حور وغیرہ کہہ کر دیکھو، ہوسکتا ہے کہ تمہارے گھریلو حالات پھر سے درست ہوجائیں۔
مرزا صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے اور اپنی زوجہ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔

اگلے ہی دن مرزا صاحب دوبارہ آن موجود ہوئے، رونی صورت پر ٹھیک بارہ بج رہے تھے اور انکی حالت یہ تھی کہ ابھی گر کے بے ہوش ہو جائیں گے۔
میں نے پوچھا کہ خیریت تو ہے نا؟

مرزا صاحب غصے سے چلائے،،، ابے تو میرا یار نہیں بلکہ دوستی کے نام پر ایک دھبہ ہے، یار مار ہے، تم سے تو دشمن اچھے، ارے کم بخت کیسے الٹے سیدھے مشورے دیتا ہے کہ میرے مسائل پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں،

میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ تمہارے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جب اس بڑھیا کو چندے افتاب اور چندے ماہتاب کہا تو وہ ٹھٹک گئی اور کہنے لگی کہ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟
پھر جب میں نے اسے جنت کی حور ، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور کہا تو زور زور سے رونے لگی اور بولی، آج کا تو دن ہی منحوس ہے، بڑی والی بیٹی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے، تمہارے ولی عہد جو بالکل تم پر گئے ہیں ساتھ والے محلے سے ٹھکائی کروا کے آئے ہیں کسی لڑکی کے چکر میں اور اب تم،

اب تم شراب پی کے گھر آگئے ہو،

1 comments:

محمد سلیم کہا...

آزما کر دیکھنا پڑے گا یہ نسخہ بھی