جمعرات، 23 جنوری، 2014
خیر یہ تو جملہء معترضہ تھا، ہم اصل واقعے کی طرف آتے ہیں۔
فوجی افسران ہر شعبہء زندگی میں خرابیوں کو تلاش کرتے اور انکی اصلاح کے لیئے موقع پر احکامات جاری کیئے جاتے، ایک دن ایک کیپٹن صاحب مسافر بسوں کو روک کر انکی چیکنگ کر رہے تھے کہ ایک بس میں انہیں پانی کا ایک مٹکا پڑا نطر آیا،
ڈرائیور سے پوچھا گیا کہ ایک بس میں مٹکے کا کیا کام، ڈرائیور نے بتایا کہ خود اسے بھی بہت پیاس لگتی ہے اس لیئے پانی کا مٹکا بس میں رکھ لیتا ہوں جس سے دوسرے مسافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں،
کیپٹن صاحب نے اسے شاباش دی، اسکا کندھا تھپتھپایا اور جانے کی اجازت دے دی،
سنا ہے کہ اسکے بعد جتنی بھی بسیں روکی گئیں ان سے پوچھا گیا کہ ''پانی والا مٹکا کدھر ہے' چنانچہ ان میں مٹکے کی عدم موجودگی پا کر سب کو جرمانہ کردیا گیا، کئی ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کو حوالات کی سیر بھی کرنا پڑی۔
اسی طرح اس زمانے کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ ایک کیپٹن صاحب کسی گاؤں میں پہنچے اور مویشیوں کو دی جانے والی خوراک کے بارے میں استفسار کیا ،
گاؤں کے چوہدری نے بتایا کہ اسکے اپنے کھیت ہیں جہاں ان جانوروں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور شام کو وہ کھا پی کر واپس آجاتے ہیں، کیپٹن صاحب نے اعتراض کیا کہ تم انکی خوراک میں کھل اور ونڈا ملا کر کیوں نہیں کھلاتے؟
اس لیئے تمہیں انکی صحت کے حوالے سے غفلت برتنے پر1000 روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔
پھجے مراثی کی باری آئی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم بتاؤ تم اپنی ککڑیوں (مرغیوں) کو کیا کھلاتے ہو؟
پھجا ڈر گیا کہ اگر جرمانہ ہوگیا تو وہ کہاں سے ادا کرے گا چنانچہ کہنے لگا،
سرکار ،،،،،!
آپ ان ککڑیوں سے ہی پوچھ لیں کہ وہ کیا کھاتی ہیں، میں تو صبح انہیں گھر سے نکلتے ہوئے ایک ایک اٹھنی تھما دیتا ہوں۔
محسن رفیق
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں