پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی

منگل، 7 جنوری، 2014


ڈاکووں نے پورے 2 گھنٹے تک خوب لوٹ مار کی اور گھر کی 4 بہووں کے زیورات اور گھر میں موجود تمام تر کرنسی لیکر رفو چکر ہوگئے۔
یہ سارا واقعہ گزر جانے کے بعد پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ایک بڑی سی وین دروازے پر رکی اور اس میں سے جدید خطوط پر کام کرنے کرنے والا عملہ اتر کر ملزمان کے فنگر پرنٹ تلاش کرنے لگا اور اسی دوران گھر والوں کو ایک عدد البم فراہم کی گئی جس میں ممکنہ ڈکیتوں کی تصاویر موجود تھیں۔

تقریباً ایک درجن پولیس والوں کو بوتلوں کے 2 ڈالے پلا دئی
ے گئے۔ انکے کام کےدوران کھانے کا وقت ہوگیا چنانچہ بازار سے انکے لیئے چکن تکہ اور کڑاہی گوشت منگوایا گیا کیونکہ قانون کے محافظوں کا پیٹ بھرا ہوگا تو انکی تفتیش بھی درست انداز میں آگے بڑھے گی۔

یہ بات مجھے میری بیوی کے بھائی نے بتائی جن کے گھر میں یہ واردات ہوئی تھی۔ اب میں باقی واقعات اسی کی زبانی سناتا ہوں۔ کوئی ایک ہفتے کے بعد مجھے ایس ایچ او صاحب کا فون آیا کہ جناب لاہور میں کچھ ڈکیت گرفتار ہوئے ہیں اس لیئے آپ گاڑی لیکر آجائیں اور اپنے ملزم اور زیور پہچان کر لے جائیں۔

میرے پاس گاڑی تو تھی نہیں اس لیئے کرائے پر گاڑی حاصل کی، اس میں ایندھن ڈلوایا اور پھر راستے میں 3/4 پولیس والوں کو ناشتہ بھی کروایا، لاہور پہنچ کر پولیس والوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں ایک پیشی ہے پہلے وہاں سے فارغ ہوجائیں تب متعلقہ تھانے میں جاکر آرام سے اپنے ملزمان کو دیکھیں گے۔

ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد ایس ایچ او صاحب نے کہا کہ اب دوپہر ہوچکی ہے اس لیئے کیوں نہ پہلے آپ کو کھانا کھلایا جائے؟
میں نے لاکھ منع کیا کہ بھوک نہیں ہے مگر تھانیدار کے سامنے ایک نہ چلی اور پھر وہی ہوا کہ لنچ کا بل بھی مجھے ہی ادا کرنا پڑا۔

یہ سب کچھ کرنے کے بعد ایک تھانے میں تشریف لے گئے اور محرر سے پوچھا کہ ہاں بھئی کدھر ہیں وہ ڈکیتی کے ملزمان؟
کون سے ملزمان جناب،،،، وہ تو بے گناہ تھے سر جی،،، آج ہی ہمارے علاقے کے ایم این اے انہیں چھڑا کر لے گئے ہیں اور الٹا ہمیں دھمکیاں لگائیں کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا، تم میرے ''شریف النفس'' اور پابند صوم صلواہ بھتیجوں پر ڈکیتی کا الزام لگا رہے ہو؟

لاہور کے ایک ہی چکر نے مجھے چکرا کے رکھ دیا اور میری جیب سے 15 ہزار روپے نکل گئے، اسکے بعد جب جی چاہتا ایس ایچ او صاحب ہمارے گھر دو تین دوستوں کے ہمراہ آدھمکتے اور خوب خاطر تواضع کروانے کے بعد بہت جلد ملزمان کی گرفتاری کی نوید مسرت سنا کر چل دیتے۔

کوئی 2 ماہ تک پولیس کے اخراجات برداشت کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ڈکیت تو 5 لاکھ کا نقصان کرکے چلے گئے تھے لیکن پولیس نے بھی 2 ماہ میں ہمارا ایک لاکھ روپیہ خرچ کروا دیا ہے، کاروبار سے غیر حاضری کی وجہ سے مجھے مزید نقصان برداشت کرنا پڑ رہا تھا ۔

اسکے بعد تو گویا میں تھانیدار کا ذاتی ملازم سا بن گیا،، جب بھی ہائی کورٹ میں پیشی ہوتی مجھے گاڑی سمیت جانا پڑتا۔ مزید ایک ماہ کے بعد میرا حوصلہ جواب دے گیا اور میں نے تھانیدار سے عرض کیا کہ جناب ہمیں اپنے ڈکیت نہیں پکڑنے اس لیئے آپ لوگ آئندہ ہمیں تکلیف دینے کی زحمت مت کریں۔

اس پر تھانیدار صاحب نے عوام کے ''عدم تعاون'' پر ایک سیر حاصل تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ مجرموں کی گرفتاری میں تعاون نہیں کریں گے تو پھر معاشرے میں جرام کی شرح بلند ہوتی جائے گی، آج یہ جو ہم چوری، ڈکیتی اور فراڈ کی وارداتوں میں اضافے کا رجحان دیکھ رہے ہیں اسکے ذمے دار صرف اور صرف عوام ہیں جو صبر، برداشت اور حوصلے سے کام نہیں لیتے، اس لیئے میری طرف سے آپ جہنم میں جائیں۔

میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور جنت نظیر تھانے سے نکل کر دنیا کی جہنم میں واپس آگیا، اس عزم کے ساتھ کہ آئندہ کبھی قانون کی مدد حاصل کرنے کی غلطی نہیں کروں گا۔

معزز قارئین،،،، کیا ان صاحب کا فیصلہ درست ہے؟

محسن رفیق




1 comments:

جوانی پِٹّا کہا...

تھانیدار کی بات صحیح تھی۔
اگر آپ لوگ ہی "تعاون" نہیں کریں گے تو ڈکیت کیسے پکڑے جائیں گے؟۔