کامیاب سیلز ایگزیکٹو

پیر، 6 جنوری، 2014


میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا جب مجھے ایک بہت بڑی پرائیویٹ فرم نے بطور سیلز ایگزیکٹو اپوائنٹ کیا، جب میں اپنے پیش رو سے چارج لے چکا تو اس نے مجھے تین عدد لفافے پیش کئیے جن پر 1، 2، 3 نمبر لکھے ہوئے تھے۔

میرے استفسار پر اس نے کہا کہ سیلز کا شعبہ اکثر و بیشتر بحرانوں کی زد میں رہتا ہے کیونکہ مالکان کا پیٹ تو بھرتا ہی نہیں اور وہ امریکیوں کی طرح ہر وقت ڈو مور(Do More) کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اس لیئے جب بھی کڑا وقت آئے ان لفافوں کو نمبروں کی ترتیب کے ساتھ کھول کر پڑھ لینا اور اگر دل مانے تو اس پر عمل بھی کرنا کیونکہ یہ میرا زندگی بھر کے تجربے کا نچوڑ ہے۔

چند ماہ تک تو معاملات درست انداز میں چلتے رہے لیکن اسکے بعد مالکان کی طرف سے سیلز میں اضافے کےلیئے دباؤ آنا شروع ہوگیا اور آخر کار ایک دن بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں مجھے بلا کر خوب جھاڑ پلائی گئی کہ ہمارے سیلز میں صرف 25 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ہمارا ٹارگٹ کم از کم 40 فیصد تھا۔

میں نے رپورٹ دینے کے لیئے ایک ہفتے کا وقت لیا اور گھر جاکر پہلا لفافہ کھولا، اس میں لکھا تھا کہ تمام خرابیوں کا ملبہ مجھ پر ڈال دو اور مالکان سے کہہ دو کہ یہ سب میرے پیش رو کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا اور یوں چند ماہ اور گزر گئے۔

بکرے کا ماں کب تک خیر مناتی،،،، آخر کار پھر وہی مرحلہ درپیش ہوا اور مجھے دوسرا لفافہ کھولنا پڑا، اس میں لکھا تھا کہ کچھ پرانے اور سست ملازمین کو فائر کردو اور نوجوان لوگوں کو اپوائنٹ کرو، یہ نسخہ بھی کار گر رہا اور گاڑی خوب مزے سے چلنے لگی۔

چند ہی ماہ گزرنے کے بعد انکے مطالبات میں مزید شدت آگئی حاالانکہ میں نے اپنی کارکردگی کی وجہ سے سیلز کا ٹارگٹ نہ صرف پورا کرلیا تھا بلکہ اس سے بھی 5 فیصد زیادہ سیلز ہوئی تھیں۔

اب مجھے تیسرا لفافہ کھولنا پڑا، اسکے اندر سے جو پرچہ برآمد ہوا اس پر لکھا تھا،،،
بیٹے، اس کمپنی میں تمہارا وقت پورا ہو چکا ہے اس لیئے نئے آنے والے کے لیئے 3 عدد لفافے تیار کرلو،،،،

مالکان کا پیٹ واقعی کسی گہرے کنویں سے کم نہیں ہوتا کیونکہ کبھی بھرتا ہی نہیں۔

محسن رفیق

2 comments:

جوانی پِٹّا کہا...

صحیح۔
کاروباری حضرات بزنس لائف سائکل سے عموماً بے بہرہ ہوتے ہیں اسی لیے سیل بڑھانے پر زور ڈالتے رہتے ہیں۔ کایاں ہونے کے باوجود مارکیٹ رئیلٹی کا ادراک کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہوتا۔
یہ حکایت بھی دراصل بزنس لائف سائکل کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے، نہ کہ ملازم کے کمپنی میں گزارے گئے ٹائم پیریڈ پر۔

میں پہلی دفعہ آپ کے بلاگ پر آیا ہوں، اور میرے لیے حاضری لگوائے بغیر جانا ناممکن ہوتا ہے عموماً۔ اسی لیے آپ کے اور عوام کے سوچنے کو یہ توجہ نوٹس پوسٹ کر رہا ہوں۔

افتخار راجہ کہا...

بہت اچھے آپ نے ہنستے ہنسے بہت گہری بات کہہ دی، بہت مشاہدہ ہے آپ کا