جمعرات، 30 جنوری، 2014
کہاں کے ارادے ہیں بیٹا جی،،،، بڑی تیاریاں شیاریاں کی ہیں؟
ہم نے جواب دیا کہ ابا جی منور ظریف کی نئی فلم آئی ہے ''رن مرید'' بس وہی دیکھنے جا رہا ہوں دوستوں کے ساتھ۔
ابا حضور مسکرائے اور فرمایا بیٹا تم شیشہ دیکھ لو اور تمہارے دوست تو روزانہ تم سے ملتے ہی رہتے ہیں اس لیئے سینما جا کر پیسے کیوں ضائع کرتے ہو؟
جب مرزا صاحب نے اپنی روئیداد مجھے سنائی تو میرے لیئے اپنا ''ہاسا'' ضبط کرنا مشکل ہوگیا، اوپر سے پوچھنے لگے کہ یار ابا حضور نے تو کوئی 25 سال پہلے یہ سب کچھ فرمایا تھا مگر آج سارے رشتے دار اور پورا محلہ میرے پیٹھ پیچھے مجھے رن مرید ہی کہتا ہے، اب تم ہی بتاؤ کی میں شکل سے تمہیں رن مرید لگتا ہوں؟
ارے نہیں مرزا صاحب،،، آپ تو شکل سے ازلی یتیم دکھائی دیتے ہیں،
جیل سے بھاگے ہوئے جیب کترے لگتے ہیں،
پکے فراڈئیے بھی دکھائی دیتے ہیں
مگر واللہ کہیں سے بھی آپ رن مرید تو ہرگز نہیں لگتے۔
یہ سن کر مرزا صاحب کے چہرے کی رونق کچھ بحال ہوئی جو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے چور کی طرح ماند پڑ چکی تھی۔
مرزا صاحب کا دل رکھنے اور یاری نبھانے کی خاطر میں نے انہیں اس کیس سے بری تو کردیا لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہوا، ایک دوست کو دھوکے میں رکھنے پر ضمیر نے بڑی لعنت ملامت بھی کی مگر ہم نے فساد فی الارض کو بنیاد بنا کر ضمیر کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیا۔
حقیقت تو کچھ یوں ہے کہ ہر شریف آدمی (نواز شریف کی بات نہیں ہو رہی) اپنی زوجہ کے ''تھلے'' لگا ہوتا ہے اور اسکی ہر بات ماننے پر اس لیئے مجبور ہے کہ گھریلو امن و امان اسکی بنیادی ضرورت ہے جس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ اپنی اسی بچپن کی کمزوری کی وجہ سے ایسے ''شرفاء'' کو رن مرید کا خطاب ملتا ہے جو مہد سے لحد تک انکا پیچھا کرتا پایا جاتا ہے۔
خیر، میں نے مرزا ساحب سے پوچھا کہ بھائی یہ خطاب تو چند جیلس قسم کے لوگوں نے پچھلے 25 سال سے دے رکھا ہے مگر آپ کو اس بات پر آج کیوں غصہ آرہا ہے؟
مرزا صاحب نے فرمایا یار یہ سب لفڑا سلیمان نے کھڑا کیا ہے،
کون سلیمان؟،،، اچھا وہ تمہارا ہڈ حرام نوکر نا،،،،
ارے نہیں یار پوری بات تو سن لیا کرو، یہ سارا جھگڑا سلطان سلیمان کی وجہ سے اٹھا ہے،
سلطان سلیمان،،،، یہ کون ذاتِ شریف ہیں؟
تم نہیں جانتے یار؟،،،
عجیب گھامڑ آدمی ہو تم بھی،،،،
ارے یہ ''حُرم'' کے شوہر نامدار کی بات ہورہی ہے۔۔
ارے مرزا کیوں پہیلیاں بھجوا رہے ہوَ،،، سیدھی طرح بات بتاؤ،،،
ارے یار سلطان سلیمان آف ترکیہ شریف 3 براعظموں پر بلا شرکت غیرے حکومت کیا کرتا تھا اور اس کی ملکہ حُرم اس پر حکومت کرتی تھی،،،
ایسی سازشی ذہن کی مالکہ تھی وہ حرافہ کہ بادشاہ کے سارے وفاداروں کو ایک ایک کرکے خود بادشاہ کے ہاتھوں مروا دیتی ہے لیکن خود پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔
سلطان کی جملہ ملکائیں، کنیزیں اور شہزادیاں کیا گل کھلاتی پھرتی ہیں اسے کچھ پتہ نہیں، بس حرم کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا ہے کم بخت۔،
بس کل رات یہی بات میں نے بچوں کے سامنے کہہ دی تو سارے کھی کھی کرکے ہنسنے لگے،،، میرے ڈانٹنے پر چھوٹے والے نے بتایا کہ ابا آپکو بھی سبھی رن مرید ہی کہا کرتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ میں اپنی''عزت'' کس طرح بحال کروں؟
یار مرزا چھوڑو اس عزت وزت کو،،،، پہلے تمہیں کونسا 32 توپوں کی سلامی ملا کرتی تھی؟
،بس تم ایسا کرو کہ میری طرف سے سلطان سلیمان آف ترکیہ شریف کی خدمت میں ایک مشورہ پیش کردو
مرزا نے پوچھا، کونسا مشورہ؟
یہی کہ اسکی محلاتی انٹیلی جنس بالکل فیل ہوچکی ہے اور اب اسے جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
تو؟
اس سے کہو کہ محل میں چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے لگوا لے، ورنہ بہت پچھتائے گا۔