''رن مرید''

جمعرات، 30 جنوری، 2014


ایک شام دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پروگرام بنا، خوب کنگھی شیشہ کرکے خوشبو وغیرہ لگا کے جب باہر جانے لگا تو والد مرحوم نے آواز دی،،،،،،
کہاں کے ارادے ہیں بیٹا جی،،،، بڑی تیاریاں شیاریاں کی ہیں؟

ہم نے جواب دیا کہ ابا جی منور ظریف کی نئی فلم آئی ہے ''رن مرید'' بس وہی دیکھنے جا رہا ہوں دوستوں کے ساتھ۔
ابا حضور مسکرائے اور فرمایا بیٹا تم شیشہ دیکھ لو اور تمہارے دوست تو روزانہ تم سے ملتے ہی رہتے ہیں اس لیئے سینما جا کر پیسے کیوں ضائع کرتے ہو؟

جب مرزا صاحب نے اپنی روئیداد مجھے سنائی تو میرے لیئے اپنا ''ہاسا'' ضبط کرنا مشکل ہوگیا، اوپر سے پوچھنے لگے کہ یار ابا حضور نے تو کوئی 25 سال پہلے یہ سب کچھ فرمایا تھا مگر آج سارے رشتے دار اور پورا محلہ میرے پیٹھ پیچھے مجھے رن مرید ہی کہتا ہے، اب تم ہی بتاؤ کی میں شکل سے تمہیں رن مرید لگتا ہوں؟
ارے نہیں مرزا صاحب،،، آپ تو شکل سے ازلی یتیم دکھائی دیتے ہیں،
جیل سے بھاگے ہوئے جیب کترے لگتے ہیں،
پکے فراڈئیے بھی دکھائی دیتے ہیں
مگر واللہ کہیں سے بھی آپ رن مرید تو ہرگز نہیں لگتے۔

یہ سن کر مرزا صاحب کے چہرے کی رونق کچھ بحال ہوئی جو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے چور کی طرح ماند پڑ چکی تھی۔
مرزا صاحب کا دل رکھنے اور یاری نبھانے کی خاطر میں نے انہیں اس کیس سے بری تو کردیا لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہوا، ایک دوست کو دھوکے میں رکھنے پر ضمیر نے بڑی لعنت ملامت بھی کی مگر ہم نے فساد فی الارض کو بنیاد بنا کر ضمیر کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیا۔

حقیقت تو کچھ یوں ہے کہ ہر شریف آدمی (نواز شریف کی بات نہیں ہو رہی) اپنی زوجہ کے ''تھلے'' لگا ہوتا ہے اور اسکی ہر بات ماننے پر اس لیئے مجبور ہے کہ گھریلو امن و امان اسکی بنیادی ضرورت ہے جس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ اپنی اسی بچپن کی کمزوری کی وجہ سے ایسے ''شرفاء'' کو رن مرید کا خطاب ملتا ہے جو مہد سے لحد تک انکا پیچھا کرتا پایا جاتا ہے۔

خیر، میں نے مرزا ساحب سے پوچھا کہ بھائی یہ خطاب تو چند جیلس قسم کے لوگوں نے پچھلے 25 سال سے دے رکھا ہے مگر آپ کو اس بات پر آج کیوں غصہ آرہا ہے؟
مرزا صاحب نے فرمایا یار یہ سب لفڑا سلیمان نے کھڑا کیا ہے،
کون سلیمان؟،،، اچھا وہ تمہارا ہڈ حرام نوکر نا،،،،

ارے نہیں یار پوری بات تو سن لیا کرو، یہ سارا جھگڑا سلطان سلیمان کی وجہ سے اٹھا ہے،

سلطان سلیمان،،،، یہ کون ذاتِ شریف ہیں؟
تم نہیں جانتے یار؟،،،
عجیب گھامڑ آدمی ہو تم بھی،،،،
ارے یہ ''حُرم'' کے شوہر نامدار کی بات ہورہی ہے۔۔

ارے مرزا کیوں پہیلیاں بھجوا رہے ہوَ،،، سیدھی طرح بات بتاؤ،،،
ارے یار سلطان سلیمان آف ترکیہ شریف 3 براعظموں پر بلا شرکت غیرے حکومت کیا کرتا تھا اور اس کی ملکہ حُرم اس پر حکومت کرتی تھی،،،
ایسی سازشی ذہن کی مالکہ تھی وہ حرافہ کہ بادشاہ کے سارے وفاداروں کو ایک ایک کرکے خود بادشاہ کے ہاتھوں مروا دیتی ہے لیکن خود پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔

سلطان کی جملہ ملکائیں، کنیزیں اور شہزادیاں کیا گل کھلاتی پھرتی ہیں اسے کچھ پتہ نہیں، بس حرم کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا ہے کم بخت۔،
بس کل رات یہی بات میں نے بچوں کے سامنے کہہ دی تو سارے کھی کھی کرکے ہنسنے لگے،،، میرے ڈانٹنے پر چھوٹے والے نے بتایا کہ ابا آپکو بھی سبھی رن مرید ہی کہا کرتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ میں اپنی''عزت'' کس طرح بحال کروں؟

یار مرزا چھوڑو اس عزت وزت کو،،،، پہلے تمہیں کونسا 32 توپوں کی سلامی ملا کرتی تھی؟
،بس تم ایسا کرو کہ میری طرف سے سلطان سلیمان آف ترکیہ شریف کی خدمت میں ایک مشورہ پیش کردو

مرزا نے پوچھا، کونسا مشورہ؟

یہی کہ اسکی محلاتی انٹیلی جنس بالکل فیل ہوچکی ہے اور اب اسے جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تو؟

اس سے کہو کہ محل میں چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے لگوا لے، ورنہ بہت پچھتائے گا۔





وینا ملک کی رخصتی اور عوام الناس پر اس کے مضر اثرات

بدھ، 29 جنوری، 2014



پڑ گئی نا ٹھنڈ تمہارے دل میں ،،،،،،!
ہر وقت ہاتھ دھو کر اس عفیفہ کے پیچھے پڑے رہتے تھے، کیا تم جیسے نام نہاد لکھاری اور کیا دین فروش ملا، سبھی ایک سی ذہنیت کے مالک ہو،،،،!

ارے یار مرزا،،، !
آخر ہوا کیا ہے؟
ہمیں پتہ تو چلے کہ تم کیوں لٹھ لیکر میرے اور ملاؤں کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کروانے کے چکر میں پڑ گئے ہو ؟؟

ارے واہ،،،،،
یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے اور تم تو ایسے معصوم بن رہے ہو جیسے کچھ جانتے ہی نہیں،

میں نے عرض کیا کہ،،،،،قسم ہے تمہارے اس منحوس سر کی جس میں بھیجے کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا، میں کچھ نہیں جانتا کہ تمہارے اول فول بکنے کے پیچھے کون کون سی علاقائی اور بین الاقوامی وجوہات کار فرما ہیں۔

مرزا صاحب نے ایک خشمگیں سی قہر آلود نگاہ مجھ پر ڈالی اور اخبار کی ایک خبر پر انگلی رکھ کر کہا اسے پڑھو،،،
یقین کیجئے کہ اس میں ایسی روح فرسا خبر تھی کہ میرے تو ہوش و حواس بالکل جاتے رہے،،،
ہاتھ شل ہوگئے اور میرے منہ سے بمشکل اتنا نکل پایا ،،،،
''پپ پپ ،،،، پانی''

خبر کچھ یوں تھی وینا ملک نے ''شو بز'' سے علیحدگی کا اعلان کردیا،،،،
یہ خبر ویسے ہی ناقابل یقین قسم کی خبر تھی کیونکہ ہم نے تو آج تک یہی سنا تھا کہ فلان ''عظیم'' فنکارہ نے اپنے شوہر، منگیتر وغیرہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا،،،

کئی دیسی اور ولائیتی ''فنکاراؤں'' کے کریڈٹ پر اس قسم کے کئی کئی حادثات موجود ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ذاتی طور پر بھی کسی ایسی ہی خبر کی توقع کررہے تھے،،،
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ہو بھی جائے تب بھی ہمارا چانس تو پوائنٹ زیرو زیرو زیرو پرسینٹ بھی نہیں بنتا۔ مگر کیا کہتے ہیں کہ

''دل ہے کہ مانتا نہیں''

ابھی تک یہ بات صیغہ ء راز میں ہے کہ یہ وینا جی کا ذاتی فیصلہ ہے یا ''خٹک'' صاحب کے شوہرانہ دباؤ کا نتیجہ،،،،
اگر تو یہ نازیبا حرکت خٹک صاحب کی ''دخل در نامعقولات'' کی وجہ سے ہوئی ہے تو ہم اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں،،کیونکہ اس ''باصلاحیت'' فنکارہ کا فن اس قدر بلندیوں کو چھو رہا تھا کہ یہ کسی قسم کی سرحدوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔

وینا جی کے شوبز چھوڑنے کے بعد یہ بازار بالکل مندا پڑ جائے گا, اب وہ رونقیں کہاں برپا ہونگی سوشل اور کمرشل میڈیا پر، جو صرف اور صرف وینا جی کے دم قدم سے تھیں؟

خاص طور پر ہمارے مولانا حضرات کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انہیں اسی قسم کی ایک عدد ہیروئین تلاش کرنا پڑے گی جو وینا جی کی طرح '' سوشل'' ہو تاکہ وہ اسے بھی جلد از جلد دائرہ ء اسلام سے خارج کرسکیں۔

آخر میں تمام فیس بکیوں کی جانب سے وینا ملک کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمیں انکے آئندہ کے ''مذموم'' ارادوں سے سخت مایوسی ہوئی ہے اس لیئے ان سے درخواست ہے کہ وہ شو بز اور ہمیں چھوڑنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔۔

''بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

العــــــــــــــــــــــــرضــــــــــــــــــــــــــــــــــے
محسن رفیق

اٹھنی

جمعرات، 23 جنوری، 2014


جنرل ایوب خان نے جب پاکستان میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگایا تو اس زمانے میں لوگ اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ انہوں نے ذخیرہ کیا ہوا سارا مال منڈیوں میں پہنچا دیا، تانگے میں جتے ہوئے گھوڑوں کی پیٹھ کے ساتھ بوریاں باندھ دی گئیں تاکہ سڑکوں پر گندگی نہ گرے، سائیکلوں پر ڈائنمو لگا کر ہیڈ لائٹیں لگ گئیں، گوشت کی دکانوں پر مکھیوں سے بچاؤ کے لیئے جالیاں لگ گئیں، سڑکوں پر صبح شام ماشکی پانی کا چھڑکاؤ کیا کرتے تاکہ گرد نہ اڑے، گویا تمام خرابیاں چند ہی دنوں میں ختم ہوگئیں اور یوں لگنے لگا کہ شائد پاکستانی ایک قوم بن جائیں گے۔ یہ الگ بات کے چند ہی ماہ کے بعد فوج کا سارا رعب و دبدبہ ختم ہوگیا اور نہ صرف پہلے موجود برائیاں دوبارہ عود کرآئیں بلکہ ان میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا جو کہ کسی المئیے سے کم نہیں۔

خیر یہ تو جملہء معترضہ تھا، ہم اصل واقعے کی طرف آتے ہیں۔
فوجی افسران ہر شعبہء زندگی میں خرابیوں کو تلاش کرتے اور انکی اصلاح کے لیئے موقع پر احکامات جاری کیئے جاتے، ایک دن ایک کیپٹن صاحب مسافر بسوں کو روک کر انکی چیکنگ کر رہے تھے کہ ایک بس میں انہیں پانی کا ایک مٹکا پڑا نطر آیا،
ڈرائیور سے پوچھا گیا کہ ایک بس میں مٹکے کا کیا کام، ڈرائیور نے بتایا کہ خود اسے بھی بہت پیاس لگتی ہے اس لیئے پانی کا مٹکا بس میں رکھ لیتا ہوں جس سے دوسرے مسافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں،
کیپٹن صاحب نے اسے شاباش دی، اسکا کندھا تھپتھپایا اور جانے کی اجازت دے دی،

سنا ہے کہ اسکے بعد جتنی بھی بسیں روکی گئیں ان سے پوچھا گیا کہ ''پانی والا مٹکا کدھر ہے' چنانچہ ان میں مٹکے کی عدم موجودگی پا کر سب کو جرمانہ کردیا گیا، کئی ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کو حوالات کی سیر بھی کرنا پڑی۔

اسی طرح اس زمانے کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ ایک کیپٹن صاحب کسی گاؤں میں پہنچے اور مویشیوں کو دی جانے والی خوراک کے بارے میں استفسار کیا ،

گاؤں کے چوہدری نے بتایا کہ اسکے اپنے کھیت ہیں جہاں ان جانوروں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور شام کو وہ کھا پی کر واپس آجاتے ہیں، کیپٹن صاحب نے اعتراض کیا کہ تم انکی خوراک میں کھل اور ونڈا ملا کر کیوں نہیں کھلاتے؟
اس لیئے تمہیں انکی صحت کے حوالے سے غفلت برتنے پر1000 روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔

پھجے مراثی کی باری آئی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم بتاؤ تم اپنی ککڑیوں (مرغیوں) کو کیا کھلاتے ہو؟

پھجا ڈر گیا کہ اگر جرمانہ ہوگیا تو وہ کہاں سے ادا کرے گا چنانچہ کہنے لگا،

سرکار ،،،،،!
آپ ان ککڑیوں سے ہی پوچھ لیں کہ وہ کیا کھاتی ہیں، میں تو صبح انہیں گھر سے نکلتے ہوئے ایک ایک اٹھنی تھما دیتا ہوں۔

محسن رفیق

مذہبی درندگی اور ریاست کی بے بسی

منگل، 21 جنوری، 2014


تحریر: لال خان
چنگاری ڈاٹ کام : 2014-01-21

انیس جنوری کو بنوں میں ہونے والے بم دھماکے میں ایف سی کے 22 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ 15 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ 20 جنوری کی صبح راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قریب آر اے بازار میں بم دھماکے سے تیرہ افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ بچوں سمیت انتیس سے زائد افراد زخمی ہیں۔ تحریک طالبان نے دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ ''حکومت خلوص ثابت کرے تو مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘ اس بیان کا ہر لفظ اس ملک کے حکمرانوں کے منہ پر زور دارطمانچہ ہے۔
مذہبی دہشتگردی کے گھن چکر کی ڈور کسی ایک فرد، ادارے، حکومت یا ایجنسی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ یہ ایک بے ہنگم سیاسی معاشیات ہے جو اداروں، افراد اور حکومتوں کی پالیسیوں کا تعین کر رہی ہے۔

افغان جنگ کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لیے افغانستان اور پاکستان میں منشیات اور اسلحے پر مبنی جو متوازی معیشت امریکیوں نے یہاں استوار کی تھی اس کا حجم اور اس کے گرد شرحِ منافع میں اضافہ ہی وہ بنیادی محرک ہے جس کی وجہ سے وفاداریوں کی خریدو فرخت کے بے لگام ہونے کی وجہ سے گروہ در گروہ اور پھوٹ در پھوٹ کی کیفیت نے صورتحال کو یکسر بے قابو کر دیا ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ نے افغانستان سے ہاتھ کھینچا تو مختلف نسلوں، قبائلوں اور قومیتوں کے ملغوبے پر مشتمل اس ملک کا خانہ جنگی کا شکار ہو جانا ناگزیر ہو گیا۔ حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے جو بھی طریقہ کار اپنائے گئے انہوں نے انتشار میں مزید اضافہ کیا۔ مختلف سردار وں کی خدمات کی خریدو فروخت جاری رہی مگر صورتحال قابو سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے گلبدین حکمت یار کی پشت پناہی کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا رہے تھے تو ''مقدس قوتوں‘‘ کی معاونت اور مشاورت کے ذریعے طالبان کو منظم اور مربوط نیٹ ورک کے ذریعے 1994 ء میں قندھار میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ طالبان کی تشکیل میں پہلے دن سے ہی اسلامی بنیاد پرست نظریات کے ساتھ ساتھ پشتون قومی اور قبائلی پیچیدہ تعلقات کا عمل دخل موجود تھا۔ افغانستان میں مزید پیش قدمی کے لیے پاکستانی مدرسوں سے مسلسل نئے اور تازہ دم طالبان کے دستوں کی رسد کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہا اور بالآخر 1996 ء کے ستمبر میں طالبان دارالحکومت کو مسخر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس پیش رفت سے نہ صرف یہ کہ انڈیا بلکہ ایران کو بھی شدید تشویش لاحق تھی کیونکہ خطے میں سعودی اثرورسوخ سب سے زیادہ ایران کے لیے تشویش کا باعث تھا۔

اس سارے عرصے میں مختلف کمپنیوں کے تیل اور گیس کے معاہدوں کے کمیشنوں کے تنازعات میں طالبان اور امریکہ کے تعلقات مسلسل خراب ہوتے رہے اور پاکستان کی عسکری اسٹیبلشمنٹ کے گھاگ افسران نے گریٹ گیم کو ڈبل گیم میں تبدیل کر کے ایک طرف طالبان کی پشت پناہی جاری رکھی تو دوسری طرف امریکہ کو نت نئے لاروں کے ذریعے وہاں سے مال بٹورنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا گیا۔ 2001ء میں صورتحال امریکی سامراج کی برداشت سے باہر ہوگئی اور افغانستان پر امریکی حملے نے افغانستان میں طاقت کے عارضی توازن کو بگاڑ کر صورتحال کو ایک بار پھر پیچیدہ کر دیا۔ اس نئے تناظر میں پاکستان ریاست کے مختلف دھڑوں کے مابین اختلافات بھی شدید تر ہوگئے اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے امریکہ دوست اور امریکہ مخالف حصوں کی باہمی چپقلش میں اضافہ ہوگیا جن کے اختلاف کی وجہ کالے دھن کی معیشت پر کنٹرول تھا۔ افغانستان میں تتر بتر ہونے والے طالبان کے مختلف دھڑوں کو، جن میں مختلف قبائلوں اور علاقوں سے تعلق کی بنیاد پر ایک کھچاؤ بھی موجود تھا، ایک مرکزی ڈھانچے کے تحت منظم کرنا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ بہرحال صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر ''اسٹریٹجک گہرائی‘‘ کی حکمت عملی کو ازسر نو منظم کرتے ہوئے ریاست کے ایک مخصوص حصے کی جانب سے تحریکِ طالبان پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی۔

''پاکستانی طالبان‘‘ کوئی یکجا اکائی نہیں ہیں۔ منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور دہشت گردی کی ''صنعت‘‘ سے وابستہ مذہبی جنونیوں کے درجنوں گروہ مختلف داخلی اور خارجی قوتوں کی پشت پناہی سے اپنے اپنے مالیاتی مفادات کے پیش نظر متعدد سمتوں میں سرگرم ہیں۔ وفاداریاں بدلتی رہتی ہیں۔ تحریک طالبان کی مرکزی قیادت میں روز اول سے اختلافات موجود ہیں۔ انہی نورا کشتیوں میں بیت اللہ محسود کے بعد نئے طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود سمیت حقانی نیٹ ورک کے کچھ اہم رہنما بھی ہلاک ہوئے۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور یہ خونی تصادم مزید شدت اختیار کرتا رہا۔ نئے کمانڈر فضل اللہ کو دیگر قبائل کے لوگوں اور خاص طور پر محسودوں کی اکثریت نے ابھی تک قبول ہی نہیں کیا کیونکہ وہ تحریکِ طالبان پاکستان کو محسودوں کی وراثت قرار دیتے ہیں۔

یہ گروپ مالیاتی لڑائیوں کے ساتھ ساتھ مختلف مسالک اور فرقوں کی وجہ سے آپس میں بھی دست و گریبان رہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں طالبان سے مذاکرات کا ناٹک ایک بیہودہ ڈرامے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ میڈیا پر جھوٹ کی نہ ختم ہونے والی اس گردان سے اب عوام کے کان پک چکے ہیں۔ وزیروں، مشیروں اور تجزیہ نگاروں کے چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن بیانات اور حل ایک ہی رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی بیچارگی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کے پاس اب بولنے کے لیے کوئی نیا جھوٹ بھی نہیں ہے جس سے عوام کو دھوکہ دیا جا سکے۔ کالے دھن کی کمائی پر ہونے والی اس خونریزی میں لاشیں گرتی جا رہی ہیں، معصوم اور بے گناہ افراد کے لہو سے دھرتی سرخ ہو گئی ہے لیکن حکمران اپنی پر تعیش زندگی اور جھوٹ بولنے کی عادت میں مگن ہیں۔

اس خونی ڈرامے کا انت نہ تو مذاکرات کے ذریعے ہو سکتا ہے اور نہ ہی ریاستی یکجوئی پیدا کرکے ان کے خلاف کوئی کامیاب آپریشن کیا جا سکتا ہے۔ اگر ریاست اداروں اور دھڑوں میں کوئی ہم آہنگی موجود ہوتی تو حالات اس قدر نازک ہونے ہی نہ پاتے۔ مذاکرات اور آپریشن کے تمام تر دعوے پہلے کی طرح آئندہ بھی کھوکھلے ثابت ہوں گے اور بے رحم اور بے حس حکمران موت کا یہ کھلواڑ اسی طرح دیکھتے رہیں گے۔ اس نئے برس میں بھی یکے بعد دیگرے 'مذاکرات اور آپریشن‘ کے ڈرامے کی مختلف اقساط ریلیز ہوتی رہیں گی۔ انتشار مزید بڑھے گا اور فرقہ واریت میں بھی اضافہ ہوگا۔
حالیہ عرصے میں مذہبی اور فرقہ وارانہ خونریزی میں آنے والی شدت دراصل مذہبی جنونیوں کی قوت میں اضافے کی بجائے ان کی کمزوری کی علامت ہے۔ جماعتِ اسلامی، جمیعت علماءِ اسلام سمیت تمام مذہبی پارٹیاں پہلے سے بہت زیادہ کمزور ہوئی ہیں اور ان کے اندر داخلی تناؤ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں بھی ان کو عبرتناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پشتونخواہ میں درحقیقت جماعتِ اسلامی نے تحریکِ انصاف کے ساتھ اتحاد کر کے کسی حد تک اپنی سیاسی تنہائی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس اتحاد کے ذریعے تحریکِ انصاف بھی جمہوری خول کے اندر سے اپنے وحشی ملائیت والے چہرے کے ساتھ عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہے۔

اسلامی بنیاد پرستی بطور نظریہ متروک ہوچکی ہے۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والے بنیاد پرست آپس میں لڑ لڑ کرنحیف ہوچکے ہیں۔ عوام اس خونی ڈرامے سے بیزار ہیں۔ یہ درست ہے کہ آبادی کی اکثریت میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے لیکن بنیاد پرستی کی سماجی بنیادیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ محض گاؤں سے روزگار کی تلاش میں شہروں میں آئے ہوئے بیروزگار نوجوانوں کا عدم اطمینان، بد عنوان نو دولتیوں کا احساسِ گناہ اور درمیانے طبقے اور لمپن پرولتاریہ کی فرسٹریشن اور جرائم پیشہ افراد کی ہوس کسی حد تک بنیاد پرستی کو سماجی مواد فراہم کر تی ہے۔ جیسے ٹھہرے ہوئے پانی پر کائی جم جاتی ہے اسی طرح فی الوقت پاکستان کے سیاسی طور پر ساکت معاشرے پر قومی اور مذہبی تعصبات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔

محنت کش عوام کی وسیع اکثریت کی طرف سے ہلکی سی بھی سیاسی ہلچل کے نتیجے میں یہ بادل بہت تیزی سے چھٹ جائیں گے اور عوام تمام رجعتی قوتوں کو رد کر کے روٹی، کپڑے، مکان، مہنگائی اور بیروزگاری کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے تاریخ کے میدان میں قدم رکھیں گے۔ وہ دن بے گناہوں کے بہنے والے لہو کے ہر قطرے کا انتقام لینے کا دن ہو گا۔ یہ انتقام صرف اس نظام زر کو اکھاڑ کر ہی لیا جا سکتا ہے۔

پھر وہاں جائے گا ؟؟؟؟


ایک شاعر تھے نام اس وقت یاد نہیں،،،
انہوں نے گھر والوں سے چوری چھپے شاعری شروع کردی(اس زمانے میں اونچے حسب نسب والے خاندانوں میں شاعری کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا)،،،

ایک دن ان کی اماں نے دوران صفائی انکے سرہانے کے نیچے سے ایک کاغذ نکالا، انہیں اندیشہ ہوا کہ شائد کسی لڑکی کا محبت نامہ ہے (یاد رہے کہ اس دور میں محبت کرنے والوں کے لیئے موبائل اور ایس ایم جیسی جدید ترین سہولیات موجود نہیں تھیں) سیدھی اسکے ابا کے پاس لے گئیں،،،

ابا نے اس پر ایک شعر لکھا ہوا دیکھا،،،
پہلے تو بیوی کو غصہ ہوئے کہ تمہارے لاڈ پیار نے لمڈے کو بگاڑ دیا ہے۔ اس کمبخت نے شعر و شاعری شروع کردی ہے،
اماں زور زور سے رونے لگیں کہ انکے نوابی بیک گراؤنڈ والے خاندان کی شرافت و نجابت کا کچرا ہونے والا ہے،



قصہ مختصر کہ موصوف نے جو شعر کہا وہ کچھ یوں تھا۔

ہمیشہ غیر کی عزت تری محفل میں ہوتی ہے
ترے کوچے میں جا کے ہم ذلیل و خوار ہوتے ہیں،

یہ شعر پڑھ کر ابا حضور کا پارہ مزید چڑھ گیا اور اپنے ناہنجار بیٹے کو مضروب کرنے کے لیئے آلاتِ تشدد کا انتخاب شروع کریا، اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ہٹلرانہ عزائم کا اظہار بھی کرتے جارہے تھے اور بیٹے کو سخت سست بھی کہہ رہے تھے جو بیچارہ ایک دیوار سے لگا تھر تھر کانپ رہا تھا
،،، بیگم میں پوچھتا ہوں جب اسکی وہاں اتنی ہی اوقات ہے تو وہاں جاتا ہی کیوں ہے؟
۔اماں بولی،،، قسم لے لیجئے جو کبھی مجھے بتا کر گیا ہو،،،،،

کیوں بے الو کی دم فاختہ،،،، شاعری کرنے پر معافی مل سکتی ہے مگر ایک بات یاد رہے کہ آج کے بعد اسکے کوچے کی طرف قدم بھی بڑھایا تو ٹانگیں توڑ دوں گا،،، جس پر شاعر بیچارے نے جان بچتی دیکھ کر ہنگامی بنیادوں پر اپنے ناکردہ جرائم کا اعتراف کرکے آئندہ وہاں جانے سے توبہ کرلی۔
13 minutes ago · Like · 4

عامل باوا کی دھونی

جمعرات، 9 جنوری، 2014


عدالت نے پرویز مشرف کی بیماری کا عذر تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور قرار دیا ہے کہ دل کے دورے کی کوئی تصدیق نہیں ہوسکی اس لیئے پرویز مشرف صاحب کو ہر حال میں 16 جنوری کو پیش ہونا پڑے گا۔


ایک تو مشرف پہلے ہی مصائب میں جکڑا ہوا ہے اوپر سے سابق صدر آصف علی زرداری نے احتساب عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ کرکے مشرف کو اور بھی مصیبت میں ڈال دیا ہے، اب اگر مشرف بھاگ جاتا ہے تو پھر ساری فوج کےلیئے ایک طعنہ بن سکتا ہے اور لوگ اس بات پر مزید پختہ ہوجائیں گے کہ صرف سویلین ہی جیلیں کاٹ سکتے اور مقدمات کا سامنا کرسکتے ہیں،،، ایک ہی جرنیل شکنجے میں آیا ہے اور وہ بھی آرمی چیف کے ترلے پا
رہا ہے۔

دوسری طرف اس موڈریٹ فیملی کی روشن خیال خاتون، بیگم صہبا پرویز مشرف بھی روائتی طور پر ایک ضعیف الاعتقاد خاتون ہی نکلیں جنہوں نے مشرف پر سے ''نحوست'' کے سائے ختم کروانے کے لیئے مختلف عاملوں اور بنگالی اور انڈین باووں سے رجوع کرلیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایک عامل صاحب نے بھاری فیس وصول کرکے مشرف صاحب کو ہرمل کی دھونی دینے کی ترکیب بتائی ہے جسکی بدولت مشرف صاحب پر سے حاسدین کی نحوست کے سائے چھٹ جائیں گے، عامل صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ مشرف کی نحوست کے سائے اس ملک پر سے کس طرح اتریں گے۔

میرے عزیز دوستو،،،!
گو کہ میں کوئی عامل وغیرہ تو نہیں ہوں مگر پھر بھی مشرف صاحب کے لیئے لال مرچوں کی دھونی تجویز کروں گا تاکہ ان پر سے خود انکی اپنی ذات کی چھائی ہوئی نحوست تو ٹل جائے، باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔

جنت کی حور

بدھ، 8 جنوری، 2014


میری شامتِ اعمال کہ آج مرزا صاحب صبح ہی صبح نازل ہوگئے۔
آپ تو جانتے ہیں کہ مرزا صاحب ہمارے دوست تو ہیں لیکن اچھے وقت کے نہیں بلکہ مشکل وقت کے دوستوں میں انکا شمار ہوتا ہے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ وہ کبھی میری مشکل میں کام آئے ہوں البتہ انکی مشکلات کو سلجھاتے سلجھاتے میں خود اچھا خاصہ عقل مند بنتا جارہا ہوں، اگرچہ میرے گھر والوں سمیت کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں آتا۔

بہر حال مرزا صاحب نے اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یار اب بہت ہو گئی، کسی طرح اس منحوس اور بدتہذیب عورت سے جان چھڑانے کا کوئی طریقہ بتاؤ۔
ارے مرزا صاحب کس منحوس عورت کی بات کررہے ہیں؟ ،،،
کوئی لڑکی وڑکی تو نہیں پھانس لی اس عمر میں؟

ارے تم بھی نرے گھامڑ ہو، مرزا صاحب نے غراتے ہوئے فرمایا،
کوئی لڑکی پھانسی ہوتی تو اسے منحوس کا لقب دیتا؟،،،
اسے تو چندے آفتاب، چندے ماہتاب، جنت کی حور، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور کہتا، میں تو اس خبطی بڑھیا کی بات کررہا ہوں جس نے بچھلے 30 سال سے میری زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔

ارے یار مرزا، جس عورت نے اپنی زندگی کے 30 قیمتی برس تم جیسے کمینے اور گھٹیا انسان کے ساتھ گزار دئیے اسکا شکرگزار ہونے کی بجائے اس سے جان چھرانا چاہتے ہو؟
کچھ تو شرم کرو یار،

مرزا صاحب کو تاؤ آگیا اور مجھے بے نقط سنانے لگے، مگر کچھ دیر کے بعد جب انکا غصہ کچھ کم ہوا تو میں نے عرض کی کہ مرزا جی،،،،
کبھی بھابی کو بھی چندے آفتاب اور جنت کی حور وغیرہ کہہ کر دیکھو، ہوسکتا ہے کہ تمہارے گھریلو حالات پھر سے درست ہوجائیں۔
مرزا صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے اور اپنی زوجہ کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیں گے۔

اگلے ہی دن مرزا صاحب دوبارہ آن موجود ہوئے، رونی صورت پر ٹھیک بارہ بج رہے تھے اور انکی حالت یہ تھی کہ ابھی گر کے بے ہوش ہو جائیں گے۔
میں نے پوچھا کہ خیریت تو ہے نا؟

مرزا صاحب غصے سے چلائے،،، ابے تو میرا یار نہیں بلکہ دوستی کے نام پر ایک دھبہ ہے، یار مار ہے، تم سے تو دشمن اچھے، ارے کم بخت کیسے الٹے سیدھے مشورے دیتا ہے کہ میرے مسائل پہلے سے بھی زیادہ سنگین ہو جاتے ہیں،

میرے پوچھنے پر کہنے لگے کہ تمہارے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جب اس بڑھیا کو چندے افتاب اور چندے ماہتاب کہا تو وہ ٹھٹک گئی اور کہنے لگی کہ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟
پھر جب میں نے اسے جنت کی حور ، آنکھوں کا نور اور دل کا سرور کہا تو زور زور سے رونے لگی اور بولی، آج کا تو دن ہی منحوس ہے، بڑی والی بیٹی نے ڈنر سیٹ توڑ دیا ہے، تمہارے ولی عہد جو بالکل تم پر گئے ہیں ساتھ والے محلے سے ٹھکائی کروا کے آئے ہیں کسی لڑکی کے چکر میں اور اب تم،

اب تم شراب پی کے گھر آگئے ہو،

پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی

منگل، 7 جنوری، 2014


ڈاکووں نے پورے 2 گھنٹے تک خوب لوٹ مار کی اور گھر کی 4 بہووں کے زیورات اور گھر میں موجود تمام تر کرنسی لیکر رفو چکر ہوگئے۔
یہ سارا واقعہ گزر جانے کے بعد پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ایک بڑی سی وین دروازے پر رکی اور اس میں سے جدید خطوط پر کام کرنے کرنے والا عملہ اتر کر ملزمان کے فنگر پرنٹ تلاش کرنے لگا اور اسی دوران گھر والوں کو ایک عدد البم فراہم کی گئی جس میں ممکنہ ڈکیتوں کی تصاویر موجود تھیں۔

تقریباً ایک درجن پولیس والوں کو بوتلوں کے 2 ڈالے پلا دئی
ے گئے۔ انکے کام کےدوران کھانے کا وقت ہوگیا چنانچہ بازار سے انکے لیئے چکن تکہ اور کڑاہی گوشت منگوایا گیا کیونکہ قانون کے محافظوں کا پیٹ بھرا ہوگا تو انکی تفتیش بھی درست انداز میں آگے بڑھے گی۔

یہ بات مجھے میری بیوی کے بھائی نے بتائی جن کے گھر میں یہ واردات ہوئی تھی۔ اب میں باقی واقعات اسی کی زبانی سناتا ہوں۔ کوئی ایک ہفتے کے بعد مجھے ایس ایچ او صاحب کا فون آیا کہ جناب لاہور میں کچھ ڈکیت گرفتار ہوئے ہیں اس لیئے آپ گاڑی لیکر آجائیں اور اپنے ملزم اور زیور پہچان کر لے جائیں۔

میرے پاس گاڑی تو تھی نہیں اس لیئے کرائے پر گاڑی حاصل کی، اس میں ایندھن ڈلوایا اور پھر راستے میں 3/4 پولیس والوں کو ناشتہ بھی کروایا، لاہور پہنچ کر پولیس والوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں ایک پیشی ہے پہلے وہاں سے فارغ ہوجائیں تب متعلقہ تھانے میں جاکر آرام سے اپنے ملزمان کو دیکھیں گے۔

ہائی کورٹ میں پیشی کے بعد ایس ایچ او صاحب نے کہا کہ اب دوپہر ہوچکی ہے اس لیئے کیوں نہ پہلے آپ کو کھانا کھلایا جائے؟
میں نے لاکھ منع کیا کہ بھوک نہیں ہے مگر تھانیدار کے سامنے ایک نہ چلی اور پھر وہی ہوا کہ لنچ کا بل بھی مجھے ہی ادا کرنا پڑا۔

یہ سب کچھ کرنے کے بعد ایک تھانے میں تشریف لے گئے اور محرر سے پوچھا کہ ہاں بھئی کدھر ہیں وہ ڈکیتی کے ملزمان؟
کون سے ملزمان جناب،،،، وہ تو بے گناہ تھے سر جی،،، آج ہی ہمارے علاقے کے ایم این اے انہیں چھڑا کر لے گئے ہیں اور الٹا ہمیں دھمکیاں لگائیں کہ میں تمہیں دیکھ لوں گا، تم میرے ''شریف النفس'' اور پابند صوم صلواہ بھتیجوں پر ڈکیتی کا الزام لگا رہے ہو؟

لاہور کے ایک ہی چکر نے مجھے چکرا کے رکھ دیا اور میری جیب سے 15 ہزار روپے نکل گئے، اسکے بعد جب جی چاہتا ایس ایچ او صاحب ہمارے گھر دو تین دوستوں کے ہمراہ آدھمکتے اور خوب خاطر تواضع کروانے کے بعد بہت جلد ملزمان کی گرفتاری کی نوید مسرت سنا کر چل دیتے۔

کوئی 2 ماہ تک پولیس کے اخراجات برداشت کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ڈکیت تو 5 لاکھ کا نقصان کرکے چلے گئے تھے لیکن پولیس نے بھی 2 ماہ میں ہمارا ایک لاکھ روپیہ خرچ کروا دیا ہے، کاروبار سے غیر حاضری کی وجہ سے مجھے مزید نقصان برداشت کرنا پڑ رہا تھا ۔

اسکے بعد تو گویا میں تھانیدار کا ذاتی ملازم سا بن گیا،، جب بھی ہائی کورٹ میں پیشی ہوتی مجھے گاڑی سمیت جانا پڑتا۔ مزید ایک ماہ کے بعد میرا حوصلہ جواب دے گیا اور میں نے تھانیدار سے عرض کیا کہ جناب ہمیں اپنے ڈکیت نہیں پکڑنے اس لیئے آپ لوگ آئندہ ہمیں تکلیف دینے کی زحمت مت کریں۔

اس پر تھانیدار صاحب نے عوام کے ''عدم تعاون'' پر ایک سیر حاصل تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ مجرموں کی گرفتاری میں تعاون نہیں کریں گے تو پھر معاشرے میں جرام کی شرح بلند ہوتی جائے گی، آج یہ جو ہم چوری، ڈکیتی اور فراڈ کی وارداتوں میں اضافے کا رجحان دیکھ رہے ہیں اسکے ذمے دار صرف اور صرف عوام ہیں جو صبر، برداشت اور حوصلے سے کام نہیں لیتے، اس لیئے میری طرف سے آپ جہنم میں جائیں۔

میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور جنت نظیر تھانے سے نکل کر دنیا کی جہنم میں واپس آگیا، اس عزم کے ساتھ کہ آئندہ کبھی قانون کی مدد حاصل کرنے کی غلطی نہیں کروں گا۔

معزز قارئین،،،، کیا ان صاحب کا فیصلہ درست ہے؟

محسن رفیق




کامیاب سیلز ایگزیکٹو

پیر، 6 جنوری، 2014


میں خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا جب مجھے ایک بہت بڑی پرائیویٹ فرم نے بطور سیلز ایگزیکٹو اپوائنٹ کیا، جب میں اپنے پیش رو سے چارج لے چکا تو اس نے مجھے تین عدد لفافے پیش کئیے جن پر 1، 2، 3 نمبر لکھے ہوئے تھے۔

میرے استفسار پر اس نے کہا کہ سیلز کا شعبہ اکثر و بیشتر بحرانوں کی زد میں رہتا ہے کیونکہ مالکان کا پیٹ تو بھرتا ہی نہیں اور وہ امریکیوں کی طرح ہر وقت ڈو مور(Do More) کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں اس لیئے جب بھی کڑا وقت آئے ان لفافوں کو نمبروں کی ترتیب کے ساتھ کھول کر پڑھ لینا اور اگر دل مانے تو اس پر عمل بھی کرنا کیونکہ یہ میرا زندگی بھر کے تجربے کا نچوڑ ہے۔

چند ماہ تک تو معاملات درست انداز میں چلتے رہے لیکن اسکے بعد مالکان کی طرف سے سیلز میں اضافے کےلیئے دباؤ آنا شروع ہوگیا اور آخر کار ایک دن بورڈ آف ڈائریکٹرز کی ایک میٹنگ میں مجھے بلا کر خوب جھاڑ پلائی گئی کہ ہمارے سیلز میں صرف 25 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ہمارا ٹارگٹ کم از کم 40 فیصد تھا۔

میں نے رپورٹ دینے کے لیئے ایک ہفتے کا وقت لیا اور گھر جاکر پہلا لفافہ کھولا، اس میں لکھا تھا کہ تمام خرابیوں کا ملبہ مجھ پر ڈال دو اور مالکان سے کہہ دو کہ یہ سب میرے پیش رو کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا اور یوں چند ماہ اور گزر گئے۔

بکرے کا ماں کب تک خیر مناتی،،،، آخر کار پھر وہی مرحلہ درپیش ہوا اور مجھے دوسرا لفافہ کھولنا پڑا، اس میں لکھا تھا کہ کچھ پرانے اور سست ملازمین کو فائر کردو اور نوجوان لوگوں کو اپوائنٹ کرو، یہ نسخہ بھی کار گر رہا اور گاڑی خوب مزے سے چلنے لگی۔

چند ہی ماہ گزرنے کے بعد انکے مطالبات میں مزید شدت آگئی حاالانکہ میں نے اپنی کارکردگی کی وجہ سے سیلز کا ٹارگٹ نہ صرف پورا کرلیا تھا بلکہ اس سے بھی 5 فیصد زیادہ سیلز ہوئی تھیں۔

اب مجھے تیسرا لفافہ کھولنا پڑا، اسکے اندر سے جو پرچہ برآمد ہوا اس پر لکھا تھا،،،
بیٹے، اس کمپنی میں تمہارا وقت پورا ہو چکا ہے اس لیئے نئے آنے والے کے لیئے 3 عدد لفافے تیار کرلو،،،،

مالکان کا پیٹ واقعی کسی گہرے کنویں سے کم نہیں ہوتا کیونکہ کبھی بھرتا ہی نہیں۔

محسن رفیق

ہیپی نیو ائیر

بدھ، 1 جنوری، 2014


کل شام 4 بجے نیوزی لینڈ میں رات کے ٹھیک 12 بج چکے تھے جب اچانک وہاں رنگ و نور کی بارش سی ہونے لگی اور لوگوں نے نئے سال کا استقبال خوشیوں اور نیک خواہشات کے ساتھ کیا، اسکے بعد رشیا اور پھر آسٹریلیا میں بھی اسی طریقے سے زبردست آتشبازی کے سائے میں نئے سال کو خوش آمدید کہا گیا۔

یہ ترقی یافتہ اقوام کا خاص طریقہء کار ہے جس کے مطابق ان لوگوں نے ہر حال میں زندہ رہنے کا ہنر سیکھ لیا ہے، یہ لوگ زندگی کو انجوائے کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل دئیے بغیر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک بھی ہوتے ہیں اور انہیں اپنی خوشیوں میں شامل بھی کرتے ہیں۔

دوسری طرف ہم ہیں کہ آپس میں باہم دست و گریباں ہیں، کہیں ذات پات کی تفریق ہے تو کہیں علاقائی اور زبان کی وجہ سے ہم لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں، مذہب جو کہ انسانوں کو فلاح کا راستہ دکھاتا ہے اور انسانی بہبود کا ایجنڈا لیکر آتا ہے ہم نے اسے بھی قتل و غارت گری کا ہتھیار بنا لیا ہے،

غیروں کا نیا سال چڑھتا ہے تو وہاں کے لوگ مسرت بھرے گیت گاتے ہیں مگر ہمارے نئے سال کی آمد پر لاشیں اٹھائی جاتی ہیں اور سہاگنوں کے بین سنائی دیتے ہیں۔

وہاں نئے سال کی آمد پر لوگ سیلبریٹ کرتے ہیں مگر ہم اپنے تہواروں کو ہلے گلے کی نذر کرڈالتے ہیں،
غیر اپنے بچوں کو خوشیاں منانے کی آزادی دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں پولیس سڑکوں پر رکاوٹیں گھڑی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔

وہ لوگ حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے تہوار مناتے ہیں مگر ہم موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر
لوگوں کو پریشان کرنے کے عمل سے مسرتیں کشید کرتے ہیں،

اوپر سے جماعت اسلامی کے لٹھ باز ایک ہفتہ پہلے ہی اپنے ڈنڈے شنڈے تیل میں بگھو دیتے ہیں تاکہ ''منچلوں'' کی خبر گیری کی جاسکے۔ یہ لوگ ہیپی نیو ائیر نائٹ کو خوب مستعد اور ہوشیار رہتے ہیں اور بوقت ضرورت ان نوجوانوں کی ٹھکائی وغیرہ بھی کی جاتی ہے۔

کیا یہی ہیں ہمارے انداز و اطوار جن کی مدد سے ہم اقوام عالم میں خود کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں؟

ہیپی نیو ائیر کے شور میں ہو سکے تو میرے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ضرور کیجئیے گا۔

تمام دوستوں کو میری طرف سے نیا سال مبارک ہو۔ میری دعاء ہے کہ نئے سال کا ٹھٹھرتا اور لرزاں و ترساں سورج ہم سب اور تمام اقوام عالم کے لیئے محبت اور بھائی چارے کا پیغام لائے۔

آمین