بابے اور کٹا

پیر، 30 دسمبر، 2013


ایک گجر صاحب کا کٹا (بھینس کا بچہ) گم ہوگیا، اس نے اپنے نو عمر بیٹے کو اپنے ساتھ لیا اور گاؤں گاؤں اپنے کٹے کو تلاش کرنے لگا۔

راستے میں جتنے بھی مزارات آتے گئے وہ کٹا ملنے پر ایک روپیہ چڑھاوے کی منت مان کر آگے بڑھتا گیا،
ایک جگہ پہنچ کر جب گجر صاحب نے مزید ایک روپیہ کسی بابے کی نذر کرنے کا وعدہ کیا تو بیٹا کہنے لگا کہ ابا چلو گھر واپس چلتے ہیں۔

باپ کے پوچھنے پر بیٹا کہنے لگا کہ ابا جی ہمارے کٹے کی قیمت سے زیادہ تو آپ منتیں مان چکے ہیں چنانچہ اب کٹا مل بھی گیا تو یہ گھاٹے کا سودا ہوگا اس لیئے میرا خیال ہے گھر واپس جانا چاہئیے۔

اس پر باپ زور زور سے ہنسنے لگا،،
جب بیٹے نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو باپ بولا،،، میری بچے،،،!
زرا کٹے کے سینگوں پر ہاتھ تو پڑنے دو، ان بابوں شابوں کو میں دیکھ لوں گا۔

یہ واقعہ اس وقت یاد آیا جب میاں نواز شریف اور جناب خواجہ آصف نے اس قوم کو خوشخبری سنائی ک بجلی کا بحران 6 سال سے پہلے حل نہیں ہوسکتا، جبکہ الیکشن کے دوران 6 ماہ کے اندر اس مسئلے سے قوم کی جان چھڑانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اب حکومت کا کٹا اور اسکے سینگ، دونوں میاں صاحب کے ہاتھ میں آچکے ہیں اب انہوں نے ہمارے ساتھ وہی سلوک کرنا ہے جس کا وعدہ گجر بھیا نے اپنے بیٹے کے ساتھ کیا تھا۔

کاروباری سوجھ بوجھ

منگل، 17 دسمبر، 2013


جب کالج سے تعلیم حاصل کرکے جب میں نے اپنا آخری امتحان بھی زبردست نمبروں سے پاس کرلیا تو میرا خیال تھا میں نے اے سی سی اے کیا ہے اس لیئے پاکستان کے تمام صنعتکار مجھ جیسے ہونہار اور عالم فاضل شخص کو نوکری دینے کے لیئے لائن میں کھڑے ہوں گے۔

غیر ملکی کمپنیاں ہاتھوں میں ہار لیئے میری منتظر ہوں گی مگر مجھے سخت حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب ایک ماہ تک میں گھر میں پڑا انتظار کرتا رہا مگر کسی نے مجھے فٹے منہہ بھی نہیں پوچھا۔

ایک دن ابا جان نے یونہی ناشتے پر پوچھ لیا کہ تم نے کہاں کہاں سی وی ڈراپ کی ہے؟
جس پر میں نے کہا کہ ابو جان مجھ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ بندے کو بھی سی وی دینے کی ضرورت ہے؟
اس پر ابا حضور نے کچھ برا سا منہ بنایا اور پھر کہنے لگے کہ بیٹا تم ہمارے ملک کے حالات سے شائد واقف نہیں ہو، یہاں محنتی، ایماندار اور پڑھے لکھے بندوں کی نہیں بلکہ بے ایمان، نااہل اور کام چوروں کی قدر ہوا کرتی ہے۔ اس لیئے تم فوری طور پر چند اچھی کمپنیوں میں اپلائی کردو انشاء اللہ تمہیں اچھی نوکری مل جائے گی۔

ابا جان کے حکم پر اگلے ہی دن جاب مارکیٹ پر حملہ کیا تو میرے چودہ طبق روشن ہوگئے، ایک بہت بڑے مینوفیکچرنگ ادارے کے مالک نے مجھے دس ہزار روپے تنخواہ کی آفر کی تو میرا خون کھول اٹھا،
ارے جناب میں نے اے سی سی اے فرسٹ کلاس میں کیا ہے اور میری گریڈنگ بھی انتہائی اعلیٰ ہے، میں نے ادارے کے مالک سے کہا،
مالک نے جواب دیا اگر اے سی سی اے کیا ہے تو ہم پر کون سا احسان کردیا؟
تم جیسے کئی پڑھے لکھے بےروزگار پھر رہے ہیں،،،
جائو چند دن تک نوکری کی تلاش میں سڑکیں ناپو پھر مجھ سے بات کرنا۔
میں بھی تم جیسا نوجوان تھا جس وقت میری جیب میں صرف 30 روپے باقی بچے تھے تب میں تم جیسا پڑھا لکھا بھی نہیں تھا مگر میں نے ان پیسوں کو انتہائی عقلمندی سے انویسٹ کیا اور اسکے نتیچے میں آج میری فرم اربوں روپے کا بزنس کرتی ہے،

میں غصے میں بھرا ہوا وہاں سے باہر نکلا مگر اس کمبخت کی بات درست نکلی،،، جہاں بھی گیا میری ڈگریوں کا تمسخر اڑایا گیا اور میرے ساتھ کچھ اس قسم کا سلوک ہوا کہ جیسے مجھ سا نالائق اور گدھا ساری دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔
اب میں ہمت ہار چکا تھا اور مجھے یقین ہوچکا تھا کہ اب اس ملک سے جاب نام کا پرندہ پرواز کرچکا ہے اس لیئے مجھے اپنا کوئی زاتی کام کرنا ہوگا۔

اپنے بزنس کے لیئے سب سے پہلے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے جو میرے پاس تھا نہیں، دوست احباب سے قرض مانگا تو انہوں نے اپنے حالات کا رونا رو کر دکھا دیا، ایک دن مایوسی اور بے زاری کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ الیکٹرونکس کمپنی کے مالک سے کیوں نہ ٹپس لیئے جائیں تاکہ میں بھی سرمائے کے بغیر کوئی بزنس شروع کرسکوں۔

اگلے ہی دن میں الیکٹرونکس مینو فیکچرنگ کمپنی کے دفتر میں پہنچ گیا اور اسکے مالک سے ملنے کی درخواست کی۔
ہاں بھئی کیسے آنا ہوا؟

وہ سر آپ نے بتایا تھا کہ آپ نے صرف 30 روپے سے کروڑوں کا بزنس اسٹارٹ کیا تھا،،،
براہ کرم مجھے بھی وہ راز بتائیں تاکہ میں بھی کوئی اسی قسم کا کاروبار شروع کرسکوں۔

مالک مسکرایا اور بولا، میرے ابا اربوں پتی تھے اور انہیں اپنی دولت کا گھمنڈ بھی بہت زیادہ تھا اسی لیئے میں ان سے ناراض ہو کر چلا گیا کہ اب میں خود ہی اپنی محنت سے کوئی کام کرکے دکھاؤں گا۔

واہ سر کیا سوچ تھی جناب،،،، میں نے بھی مکھن لگانے میں دیر نہیں کی۔
ہاں تو ،،، ایک سال تک مجھے کوئی کامیابی نہیں ہوئی اور پھر ایک دن میرے پاس صرف 30 روپے باقی رہ گئے،، یہ کہہ کر اس نے گفتگو میں ڈرامائی وقفہ دیا،
میرے تجسس میں اضافہ ہو رہا تھا اور وہ کمبخت سگریٹ کا دھواں فضا میں بکھیرتے ہوئے گویا دور کہیں خلا میں گھور رہا تھا۔

میں ہلکا سا کھانس کر اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، تو اس نے چونکتے ہوئے کہا کہ میں زرا پرانی یادوں میں کھو گیا تھا،،
ہاں تو ،،، میں نے ان باقی ماندہ 30 روپے سے فون میں ایزی لوڈ ڈلوایا اور
،
،
،
،
؟؟؟ابا مرحوم کو فون کرکے 50 کروڑ روپے منگوا لیئے،۔

جانے کب ہوں گے کم ؟؟؟

جمعہ، 13 دسمبر، 2013


مشرف کی فوجی حکومت کے دوران ملک کے ایک بڑے حصے پر ق لیگ نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ گروپ کے ساتھ مل کر حکومت بنائی اور کچھ حساس قسم کا ایریا جہاں جنرل صاحب کو کسی حد تک دینی سپورٹ کی ضرورت تھی وہاں ملاؤں کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔

ق لیگ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے وہ لوگ تھے جنہوں نے سیاست کو خدمت کی بجائے اپنے زاتی مفادات کی آبیاری کا ذریعہ سمجھا اور اس نظرئیے پر خوب خوب عمل کرکے دکھایا،

دوسری جانب دیکھا جائے تو ملاؤں نے بھی بظاہر اپورزیشن کا کردار ادا کیا مگر در پردہ مشرف کو سپورٹ کرتے رہے، یہاں تک کہ اسے باوردی صدر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، اس وقت کے صوبہ سرحد میں ملاؤں کی حکومت ہونے کے باوجود پاکستان نہ صرف دہشت گردی کی جنگ میں امریکیوں کا اتحادی بنا بلکہ نیٹو سپلائی کا بھی اجراء ہوا۔

2008 کے انتخابات میں پاکستانی عوام نے مشرف اور اسکے حمائتیوں کا حقہ پانی بند کرکے انہیں اسمبلیوں سے باہر پھینک دیا اور اس طرح اپنے لیئے ایک تبدیلی کی بنیاد رکھ دی جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت جو کہ بار بار عوام اور روٹی کپڑا، مکان کے نعرے لگاتی ہے وہ عوامی مسئل کا حل نکالنے میں نہ صرف ناکام ہوئی بلکہ ان میں گوں نا گوں اضافے کا باعث بنی۔

مئی 2013 میں پیپلز پارٹی سے مایوس عوام نے نواز شریف پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا مگر آخری خبریں آنے تک وہ بھی عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ پاکستانی عوام کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ بار بار حکومتوں کو تبدیل کرنے کا مینڈیٹ دینے کے باوجود ان عوام کی شنوائی نہیں ہورہی اور انکے مقدر میں لکھی ذلتوں میں انتہائی تیز رفتاری سے اضافہ ہورہا ہے۔ روزمرہ ضرورت کی اشیاء نہ صرف ناپید ہیں بلکہ مہنگی اور سب سٹینڈرڈ بھی ہیں، تمام کاروباری گروپوں نے اتحاد کرکے مافیاز بنا لیئے ہیں جو آئے دن حکومتوں کو بلیک میل کرکے من مرضی کے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ تعلیمی اور علاج معالجہ کی سہولتیں تو چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں، اکر کسی غریب کا بچہ ڈگری حاصل کربھی لے تو ہر دفتر کے بار لگا نو ویکیسنی کا بورڈ اس کا منہ چڑا رہا ہوتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال اس قدر دگرگوں ہے کہ خود پولیس اور فوج بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شائد یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں حل کرنا ممکن ہی نہیں لیکن آئیے آپکو ایک افریقی ملک کے بارے میں مختصر سی معلومات دیں تاکہ آپکو پتہ چل سکے کہ ہمارے سیاستدان اور جرنیل کس قسم کے لوگ ہیں۔

کینی
ا ایک ایسا افریقی ملک ہے جس کی آمدنی کا زیادہ تر دارو مدار سفاری پارک اور چائے کے باغات ہیں، وہاں کی آبادی 4 کروڑ ہے۔ یہاں کوئی 6 ماہ پہلے صدارتی الیکشن ہوئے جس میں حکمران پارٹی کو شکست ہوگئی اور وہاں نئی حکومت بن گئی، اس سے قبل وہاں کے حالات اور وطن عزیز کے مسائل میں چنداں فرق نہیں تھا، بلکہ وہاں تو لوگ ٹین ڈبوں سے بنے ہوئے جھونپڑوں مین رہتے ہیں،
انکے ہاں کسی قسم کی کوئی انڈسٹری نہیں ہے اور اسے مکمل طور پر ایک کنزیومرز اسٹیٹ کا درجہ حاصل ہے۔

نئی آنے والی حکومت نے ایک کام تو یہ کیا ہے کہ انہوں نے اپنے وزراء کی تعداد 44 سے کم کرکے 18 کردی ہے، اسکے علاوہ وہاں اشرافیہ کی بجائے عوام دوست پالیسیاں اپنائی ہیں جس کے نتیجے میں 6 ماہ کے مختصر ترین عرصے میں وہاں کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا ہے اور سرمائے کا رخ بالائی طبقے کی بجائے عام آدمی کی طرف ہوجانے سے وہاں خوشحالی کا ایک سنہرا دور شروع ہو چکا ہے، انکی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج سے کوئی سال بھر پہلے امریکی ڈالر وہاں کی کرنسی کے حساب سے 150 کا ملتا تھا جبکہ اس وقت 85 پر آچکا ہے۔

وہاں کی حکومت نے کینیا سے غیر ملکی ورکروں کو نکالنا شروع کردیا ہے اور غیر ملکی کمپنیوں کو بھی اس بات کا پابند کردیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مقامی لوگوں کو ہی جاب دیں۔ پچھلے دنوں کینیا کے ایک سپر سٹور میں ہونے والی دہشت گردی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتی ہے جس میں کینیا کی حکومت کو دھمکایا گیا ہو، لیکن انہوں نے اسے زرہ برابر اہمیت نہیں دی اور امیگریشن کے قوانین کو مزید سخت بنا دیا ہے۔ دہشت گردی کے اس واقعہ میں 35 افراد ہلاک ہوئے اور وہاں کی حکومت نے اس قدر سختی کردی کے اب وہاں پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا، ایک پاکستان ہے جہاں انسانی جان کی کوئی وقعت ہی نہیں ایک ایک دھماکے میں 200 لوگ مارے جاتے ہیں اور ہمارے حکمران دہشت گردوں کی مذمت اور مرنے والوں کے لواحقین کے ساتھ ہمدردیاں کرنے کے بعد پھر اپنی لوٹ مار میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
اس وقت تک پاکستان میں 75 ہزار سے زیادہ لوگ دہشت گردانہ کاروائیوں کا نشانہ بن چکے ہیں، کتنی سہاگنیں بیوہ اور کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے؟
کتنی ہی مائیں آج بھی اپنے بیٹوں کی واپسی کی امید میں گھروں کے دروازوں پر نطریں جمائے آنسو بہا رہی ہیں مگر حکمران ابھی تک اپنے عوام کی حفاظت کے لیئے کوئی بھی ٹھوس پالیسی بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

کینیا حکومت کی پالیسیاں دیگر ممالک کے لیئے قابلِ قبول ہوں یا نہ ہوں مگر انکے اپنے عوام کے مفاد میں ہیں، اسی طرح اور بھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جسے یکسر بدل کر رکھ دیا گیا ہے اور وہاں کے عوام کو پتہ چل رہا ہے کہ کوئی تبدیلی آئی ہے، اسکے برعکس پاکستانی عوام نے مختلف پارٹیوں کو دو تہائی اکثریت دے کر بھی دیکھ لیا لیکن انکی زندگیوں میں بہار کا ایک جھونکا تک نہیں آسکا۔ یہ صورتحال خود حکمران طبقے کے لیئے الارمنگ ہے اور شائد عوامی ابال خطرے کے نشان کے قریب تر آتا جارہا ہے،،، وہ دن دور نہیں جب پریشر ککر ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ جائے گا۔

المیہء مشرقی پاکستان کا ایک اور پہلو


یحیٰ خان نے جب الیکشن کروائے تو اسکا خیال تھا کہ منقسم مینڈیٹ آئے گا اس لیئے وہ سیاستدانوں نے ساتھ مول تول کرکے صدارت کا عہدہ حاصل کرلے گا، مگر شیخ مجیب کی عوامی لیگ کی لینڈ سلائیڈ وکٹری نے یحیٰ خان سمیت بہت سے لوگوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور انکے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔

بہت سے فیلسوف حضرات ان انتخابات کو فری ایڈ فیئر قرار دیتے ہیں، خود میرا بھی یہی خیال ہے مگر ایسے فری اینڈ فیئر الیکشن کس کام کے جب انکے نتائج پر عملدرآمد ہی نہیں کرنا؟

بعد ازاں شیخ مجیب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کردیا گیا، کیونکہ اس سے الیکشن جیتنے کا جرم سرزد ہوچکا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر وہ جرنیلوں کے دباؤ میں آنے کو تیار نہیں تھا، مشرقی پاکستان کی ایک نشست چھوڑ کر باقی تمام کی تمام شیخ مجیب نے جیت لی تھیں اس لیئے وزارت بنانا اور صدر پاکستان منتخب کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس تھا جسے اسٹیبلسمنٹ نے تسلیم نہیں کیا بلکہ ایک بے جا ضد کا سہارا لیا جس کی بدولت بنگالیوں میں مزاحمت کا رجحان پیدا ہوا۔

ہم ذوالفقار علی بھٹو کو المیہ مشرقی پاکستان کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ مغربی پاکستان کے تمام سیاسی لیڈر بنگالیوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ مشرقی پاکستان کے ہوتے ہوئے یہاں کے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی دال گلنے والی نہیں تھی، عوامی لیگ بلاشبہ ایک عوامی پارٹی تھی اور آپکو اس پارٹی میں مڈل کلاسیوں کی بالادستی دکھائی دے گی جسکی وجہ سے انہیں زبردستی پاکستان سے جدا کردیا گیا،،، مگر اس قدر صفائی کے ساتھ کہ سارا الزام فوج نے اپنے اورپر لے لیا۔

مشرقی پاکستان کے الگ ہوتے ہی یہاں کے جاگیرداروں، گدی نشینوں، سرداروں اور نوابوں کی لاٹری نکل آئی اور وہ آکٹوپس اور مردار خور گِدھوں کی طرح بچے کھچے پاکستان پر اپنا شکنجہ کس کے بیٹھ گئے۔

جب مجیب کو جیل میں ڈالا گیا تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پرانے طریقہء واردات پر عمل کرتے ہوئے (آج انتے سال اور ایک عظیم سانحہ گزرنے کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کا یہی وطیرہ ہے) عوامی لیگ کے کارکنوں پر بھی عرصہء حیات تنگ کردیا۔ ایسے وقت میں اندرا گاندھی کو موقع غنیمت لگا اور اس نے عوامی لیگ کے ہاکس کے ساتھ معاملات طے کرکے انہیں مکتی باہنی کے نام سے نہ صرف منظم کیا بلکہ انکی تربیت بھی کی اور ان میں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹ بھی داخل کردئیے جو کہ انڈین آرمی کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس ملازمین تھے۔

جب مشرقی پاکستان میں گوریلا وار شروع ہوئی تب فوج کو اندازہ ہوا کہ اس قسم کی جنگ لڑنا انکے بس سے باہر ہے کیونکہ ایک طرف تو مقامی آبادی کی اکچریت انکے خلاف ہوچکی ہے تو دوسری طرف ریگولر آرمی اور چھاپہ مار فوج کی تربیت میں بہت فرق ہوا کرتا ہے اور یقینی طور پر اس قسم کی جنگ میں گوریلا وار کے تربیت یافتہ لوگ ہی کامیاب ہوتے ہیں، ایسے میں فوجی جرنیلوں نے ہٹ دھرمی چھوڑ کے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے جماعت اسلامی کے ''الشمس'' اور ''البدر'' کے نوجوانوں کو استعمال کیا،

جماعت اسلامی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو اس نے ہمیشہ جرنیلوں کی ''خدمات'' سرانجام دی ہیں، اس دور میں بھی جماعت اسلامی نے رائے عامہ سے صرف نظر کرتے ہوئے اقتدار کے بھوکے جرنیل کا ساتھ دیا، کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ ایسے وقت میں جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑی ہوتی اور یحیٰ خان پر سیاسی دباؤ ڈالا جاتا کہ عوام کے فیصلے کے سامنے گردن جھکا دے مگر افسوس کہ اس نے اقتدار کے پجاریوں کا ساتھ دیکر متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی،

اس دور میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے والوں کو آج وہاں ایک غدار کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے، ملا عبدالقادر کی سزائے موت اور دیگر لوگوں پر چلائے جانے والے مقدمات اسی چپقلش کا شاخسانہ ہیں،، مجھے ملا عبدالقادر اور انکے ورثاء سے ہمدردی ہے اور اب اتنے سال گزر جانے کے بعد اس قسم کی چیزیں محض انتقامی کاروائی ہی کہلا سکتی ہیں،، مگر یہ کہنا کہ جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کی جنگ لڑی تو میں معذرت چاہتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں تھا بلکہ اس جماعت نے جرنیلوں کا ساتھ دیکر پاکستان توڑنے کی جنگ لڑی اور اس میں کامیاب رہی۔

کسان اور گدھا

جمعرات، 5 دسمبر، 2013


ایک کسان نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی بیوی کو بتایا کہ آج جب وہ اپنے گدھے پر چارہ لاد کر گھر آرہا تو راستے میں گدھے،،،

اتنے میں چنو نے زور سے ہانک لگائی،،،،،
امی منو نے میرا جوتا پہن لیا ہے،

بیوی نے اپنے خاوند سے معذرت کی اور ان بچوں کا معاملہ سیٹل کروانے کے بعد دوبارہ اپنے شوہر کے پاس آبیٹھی اور بولی،

اب سناؤ کیا ہوا تھا،

کسان بولا کہ جب میں گدھے کو لیکر واپس گاؤں کی چلا تو،،،، ا
اتنے میں سب سے چھوٹی بیٹی چلانے لگی جو واکر سے گر کے ماتھے پر چوٹ کھا بیٹھی تھی اور اسکے ماتھے پر ایک گومڑ سا ابھر آیا جس طرح گوادر میں جزیرہ ابھرا ہے۔

اسی طرح بے چارے کسان نے کئی مرتبہ اپنی بات مکمل کرنے کی کوشش کی مگر اسکی اپنی ہی ''مکتی باہنی'' نے اسے ناکام بنادیا۔

آخر کار کسان کی بیوی اپنے بچوں پر برس پڑی اور انہیں سختی سے ڈانٹتے ہوئے بولی،

کم بختو!

سکون کے ساتھ ''گدھے'' کی بات تو سن لینے دو،،،،!

سگ گزیدہ


ایک صاحب کو ہلکے (باؤلے) کتے نے کاٹ لیا۔ ڈاکتر نے انکے متعدد ٹیسٹ کروانے کے بعد افسوس سے سر ہلایا اور کہا,
قریشی صاحب ! آپ کا آخری وقت آگیا ہے اس لیئے اللہ سے اپنے گناہوں پر توبہ استغفار کرلیں کیونکہ آپ پر کسی بھی وقت پاگل پن کا دورہ پڑ سکتا ہے اور اسکے بعد آپ لوگوں کو کتے کی طرح کاٹنے کی کوشش کریں گے، اگر آپ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے تو وہ شخص بھی باؤلا ہوجائے گا جسے آپ نے کاٹا ہوگا، اور وہ بھی تڑپ تڑپ کر مر جائے گا، بس آپ گھر جائیں اور اللہ اللہ کریں۔

یہ سن کر قریشی صاحب نے ڈاکٹر سے پینسل اور کاغذ مانگا،
ڈاکٹر نے پوچھا کہ کیا آپ وصیت لکھنا چاہتے ہیں؟

قریشی صاحب نے جواب دیا
نہیں،
،
میں ان لوگوں کی فہرست تیار کروں گا ،
،
،
،
،
،
،
،
،
،
جنہیں کاٹنے کا ارادہ ہے۔

سمجھوتہ

بدھ، 4 دسمبر، 2013


کرمو چاچا آج مرغی کا بھاؤ کیا ہے؟
کیس
ا بھاؤ بابو جی؟
جب سے اپنا نواج شریپھ ا(نواز شریف) اس دھندے میں پڑا ہے مرغی کی قیمتیں بھی سونے کے ریٹ کی طریوں آسمان پر ہی چرھتی جاویں،
ابھی کل ہی 190 روپے بیچا تھا اور آج ہمیں 225 روپے میں ملا ہے، آپ تو پڑھے لکھے ہو بابو جی اور اکھبار میں بھی لکھت ہو،، آپ تو جانو ہو کہ لوگ اِتا پیسہ کیا کرت ہیں؟

ابھی کومو چاچا کی تقریر جاری تھی کہ ہمارے ارد گرد یکدم سناٹا سا چھا گیا،،
میں نے مڑ کے پیچھے کی طرف دیکھا تو بھرے بازار میں 2 ڈاکووں نے پسٹل کے زور پر ایک نوجوان کو گھیر رکھا ہے اور اس سے رقم اور موبائل فون کا مطالبہ کر رہے تھے۔
اس نوجوان نے کمال جرآت سے کام لیتے ہوئے ایک ڈاکو کے ہاتھ پر زور دار کک ماری اور اسکا پسٹل ہوا میں قلابازیاں کھاتا ہوا عین میرے قدموں میں آگرا۔ دوسرے پر جست لگا کر اسکا پسٹل والا ہاتھ قابو کرکے اسے زمین پر گرا دیا اور لوگوں سے کہا کہ اسکی مدد کریں تاکہ ڈاکووں کو پکڑ کے قانون کے حوالے کیا جاسکے، مگر سارے مجمعے کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا، مجھ سمیت کسی میں انتی ہمت نہ تھی کہ اس نوجوان کی مدد کرتے چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ڈاکووں نے مل کر اس نوجوان کو قابو کرلیا، بڑے سکون کے ساتھ اسے گولی ماری اور آرام سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

دکانداروں نے اسی وقت دکانوں کے شٹر گرا دیئے اور دیگر لوگ بھی جائے واردات سے ادھر ادھر ہوگئے،
اتنے میں پولیس آگئی اور ایک انسپکتر نے جائے واردات پر موجود لوگوں سے اس واردات کے بارے میں پوچھا،،،، 90 فیصد لوگوں کی آنکھوں کے سامنے یہ واردات ہوئی لیکن کسی نے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور یہ واردات بھی ٹارگٹ کلنک کے کھاتے میں لکھی گئی،

لاش کو ایمبولینس میں منتقل کر دیا گیا اور بازار کی رونق پھر اسی طرح بحال ہوگئی، گولیوں کی آوز سے خوف زدہ لوگ دوبارہ روزمرہ کاموں کی طرف لوٹ آئے اور دکانداروں نے حالات پر کڑھتے ہوئے چار چھ گالیاں حکومت وقت کی شان میں پیش کیں جو حالات کو سدھارنے میں قطعی طور پر ناکام ہوچکی تھی۔ صرف 30 منٹ کے اندر اندر کاروبارِ زندگی پھر رواں دواں تھا۔

میں نے کرموں چاچا کو 2 کلو مرغی کا آرڈر دیا، اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔
سنا ہے کہ یہاں کوئی ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے؟
ایک ادھیر عمر آدمی نے استفسار کیا،
ارے ڈکیتی نہیں جناب، یہ تو مجھے وہی لوگ لگتے ہیں جنہوں نے پرسوں کیبل والے فہیم کو گولی ماری تھی کیونکہ وہ مزید بھتہ دینے سے انکاری تھا۔
یہ تو اب روج کی بات ہے صاحب جی پیسہ لوگوں کی جیب میں چھورا ہی نہیں تو پھر ڈکیتیاں اور بھتہ خوری ہی ہوگی نا،،،،
ایک بوڑھی اماں بولی،،،، پتہ نہیں کب حالات بدلیں گے؟
ہم نے تو ہر کسی کو ووٹ بھی دیکر دیکھ لیا مگر پہلے سے بھی زیادہ دکھی ہوگئے ہم تو،
ارے اماں،،،! باؤلی ہوئی ہے کیا؟
یہاں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔، سارے حکمران اور اپوزیشن والے کرپٹ ہیں، یہاں تو بس ایک خمینی کی ضرورت ہے جو سب کو تیر کی طرح سیدھا کردے، یہ کہہ کر اس دبلے پتلے نوجوان نے سگریٹ کے دھویں کا ایک مرغولہ ہوا میں بکھیر دیا۔

ابے فومانچو کی اولاد،،،،!
خمینی نہ ہوا کوگڑ کاں (پہاڑی کوا) ہوگیا جو اڑتا ہوا آکر تمہاری منڈیر پر بیٹھ جائے گا اور چشم زدن میں تم لوگوں کے مسائل حل کرکے چلتا بنے گا۔ ابے نالائق،،،
اس دنیا میں جہاں بھی حالات بدلتے ہیں وہاں لوگوں نے خود ہمت کی اور اپنے مستقبل کے تحفظ کی خاطر قربانیوں کی لازوال مثالیں قائم کیں، تم جیسے نوجوان تو بس آئیڈیل ازم کا شکار ہیں کہ فلاں آجائے گا تو ایسا ہوجائے گا، ویسا ہوجائے گا، سب کچھ بدل جائے گا۔
ایک صاحب نے اس نوجوان کو ڈانٹتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایک مولانا صاحب بھی وہاں موجود تھے اس لیئے وہ کیوں پیچھے رہتے؟
انکا فرمانا تھا کہ یہ سب یہود و نصارا کی سازشیں تھیں جو اسلام کی بالا دستی سے خوف ذدہ ہیں اسی لیئے ہمارے ہاں فرقہ پرستی اور علاقائیت کو فروغ دے رہے ہیں۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ جب ڈاکو کا پسٹل میرے قدموں میں پڑا تھا تو میں اسے اٹھا کر اس نوجوان کی مدد کرسکتا تھا مگر میری بزدلی اور مصلحت پسندی آڑے آئی یا یہود و نصارا نے میرا ہاتھ روک لیا؟
کرپٹ حکمرانوں نے مجھے اس نوجوان کی مدد سے روکا یا پھر میرے اندر قوت مزاحمت کا ہی خاتمہ ہوچکا جو برائی کے خلاف لڑنے کی طاقت عطا کرتی ہے؟

یکا یک میری نگاہ چاچا کرمو کے ہاتھوں پر پڑی جو میرے لیئے مرغی نکالنے کے لیئے دڑبے میں ہاتھ ڈال رہا تھا، وہ مرغیاں جو آرام سے دانہ چگ رہی تھیں ان میں ایک ہلچل سی پدا ہوئی اور چاچا کرمو کا ہاتھ دڑبے سے باہر آیا جس میں 2 کلو کی ایک مرغی اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کررہے تھی، مگر چاچا کرمو نے اسے تکبیر پھیری اور نیلے رنگ کے ایک ڈرم میں تڑپنے کے لیئے چھوڑ دیا۔

چند منٹ کے بعد جب کومو چاچا میرے لیئے مرغ کے ٹکڑے کررہا تھا اس وقت میرے نگاہ ڈربے کی طرف اٹھی تو وہی مرغیاں جو کچھ دیر پہلے اپنی جان بچانے کےلیئے قیں قیں کررہی تھیں، بڑے آرام کے ساتھ سر جھکائے دانہ چگنے میں مصروف تھیں۔
تب مجھ پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ ہم سب نے ان مرغیوں کی طرح اپنے اپنے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے اور اس بات پر خوش ہیں کہ ڈکیتی میں مارا جانے والا ہمارا کوئی پیارا یا پھر ہم خود نہیں تھے۔

یہ سوچتے سوچتے گھر کی جانب چلا ہی تھا کہ بازار کی فضا ایک مرتبہ پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی اور دکانداروں نے فوری طور پر دکانوں کے شٹر گرانے شروع کردئیے، بازار میں آئے ہوئے لوگ ساتھ کی گلیوں کی طرف بھاگ نکلے۔