امکانی سانحہء ارتحال

بدھ، 19 فروری، 2014


یقیناً یہ روح فرسا اور المناک خبر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام میں بڑے دکھ اور گہرے رنج و الم
کے ساتھ سنی جائے گی کہ اپنے مشہور و معروف کنٹینر برانڈ شیخ الاسلام جناب علامہ طاہر القادری کی عمر مبارک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے برابر یعنی 63 برس ہوگئی ہے اس طرح ان کے دن (انکی اپنی بشارت کے مطابق) پورے
ہوگئے ہیں اور اب وہ کسی بھی وقت بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مرحوم و مغفور ہو سکتے ہیں۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

سنا ہے کہ ان کے گھر میں فاتحہ خوانی کے تمام انتظامات مکمل کرلیئے گئے ہیں، آئیت کریمہ اور ''گِٹکیں'' پڑھنے والے ملاؤں کی بھی کرایہ پر بکنگ کر لی گئی ہے، اب اگر دیر سویر ہے تو صرف علامہ صاحب کی طرف سے ہے۔

زرا سوچئیے کہ شیخ الاسلام کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان کچھ سونا سونا سا نہیں لگنے لگے گا؟
ان کے دم سے گلشن میں جو بہاریں تھیں، جو رونق میلہ تھا وہ انکے ساتھ ہی عنقا ہو جائیں گی، میڈیا بھی 4 دن انکی یاد میں پروگرام پیش کرے گا اور پھر دستور زمانہ پر عمل کرتے ہوئے بھول جائے گا،
یقین کیجئیے ایسی باتیں سوچتے ہوئے ہمارا تو کلیجہ منہ کو آرہا ہے مگر کیا کیجئے کہ واپسی کا وعدہ برحق ہے اور اس پر چار و ناچار عمل تو کرنا ہی ہوگا۔

''موت سے کس کو رستگاری ہے''

'' ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر انکی جگہ تخت نشین ،،، معاف کیجئیے گا، گدی نشین ہونی والی شخصیت میں ان جیسی ''خوبیاں نہ ہوئیں تو ہر سال اسلام آباد میلہ کون لگایا کرے گا۔ علامہ صاحب کو چاہئیے کہ وہ جاتے جاتے اپنے جانشین کو وصیت کرتے جائیں کہ انکی برسی ہر سال شاہراہ دستور پر دھرنا دیکر منائی جائے۔

چونکہ ابھی تک شیخ الاسلام نے اپنی عمر میں ایکسٹینشن کی کوئی بشارت نہیں سنائی اس لیئے ہم نے انکی پرانی پیشین گوئی کی بنیاد پر یہ پوسٹ لکھی ہے، البتہ عمر میں توسیع کی خبر آئی تو اس پوسٹ کو کینسل سمجھا جائے کیونکہ علامہ صاحب کی پیشین گوئیاں اور بشارتیں حیرت انگیز طور پر اوپر سے نازل ہوتی ہیں اس لیئے ہم جیسے زمینی باشندوں کو ان پر اعتراض کرکے خدائی اور ''شیخائی'' کاموں میں مداخلت سے باز رہنا چاہئیے۔

افسوس کا مقام

پیر، 17 فروری، 2014


کل بلوچستان سے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے آنے والا قافلہ گوجرانوالہ میں وارد ہوا، اس قافلے میں ایک ماما قدیر دو عدد بچے اور 9 خواتین تھیں، جو ایک ہتھ ریڑھی پر اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے شہروں شہروں گھوم کر اس قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں۔

ہمیں ان کے سیاسی نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، ہم اس مسئلہ کو انسانی نکتہء نگاہ سے دیکھتے ہیں،، ویسے بھی پنجاب کی پمیشہ سے روائت رہی ہے کہ ہم لوگ بیٹیوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں،

اس سلسہ میں بھی ہمارا موقف بالکل واضع ہے کہ جن لوگوں کو غائب کیا گیا ہے، یا وہ از خود غائب ہوئے ہیں، انہیں بازیاب کروا کے عدالتوں میں پیش کیا جائے،

آج کی دنیا میں اس قسم کے ظلم کو روا رکھنا کسی بھی طرح جائز نہیں سمجھا جا سکتا، اس وقت مجھے انتہائی دکھ اور افسوس ہوا جن پاکستان کی کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ان پارٹیوں کا ایک بھی کارکن قافلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے نہیں پہنچا۔

جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر ملاؤں نے بھی عملاً ان کے استقبال کا بائیکاٹ کیا، سب سے زیادہ دکھ لیفٹ کے کامریڈز کے روئیے پر ہوا جو ہر سانس کے ساتھ انقلاب کی بات کرتے ہیں لیکن مسنگ پرسنز کا استقبال کرنے میں ان کا بھی پیشاب خطا ہو گیا۔

صرف دو پارٹیوں نے اس کام میں حصہ لیا،
1: تکمیل پاکستان موومنٹ
2: ورکرز پارٹی

یہ دونوں پارٹیاں مزدوروں اور محنت کشوں کے تحفظ کے لیئے ہمیشہ کمر بستہ رہتی ہیں اور کل کے اس ایونٹ کو انہوں نے مل کر پورا کیا، گوجرانوالہ کے چند ترقی پسند دانشوروں نے البتہ اپنی حاضری لگوائی جس سے ہمارا دکھ کسی حد تک کم ہوگیا۔

ہم مشکور ہیں جناب محمد اسرائیل رانا ایڈووکیٹ کے جنہوں نے چن دا قلعہ بائیپاس سے لیکر پی ڈبلیو ڈی ہال تک قافلے کی رہنمائی کی اور انہیں دو مرتبہ ڈی ٹریک کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا،،، اسی کے ساتھ علامہ فاروق عالم انصاری صاحب کے بھی بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ آخری ھد تک تعاون کیا، اسی طرح ڈاکٹر عمر نصر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں، وہ اپنی صھافی ذمہ داریوں کی وجہ سے صرف ایک مرتبہ آکر واپس چلے گئے لیکن انکی بھرپور شرکت ہوگئی۔

یادش بخیر ابھی چند دن پہلے ایم کیو ایم کے ایک کارکن پر پولیس نے تشدد کیا اور انہوں نے ہڑتال کرکے سارا شہر بلاک کردیا،،، پیں پوچھتا ہوں کہ کیا بلوچ اسی قدر لاوارث ہیں کہ انکے لیئے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی، میڈیا انکا بلیک آؤٹ کررہا ہے، راستے میں انہیں طرح طرح سے ستایا جاتا ہے،،،، کیا یہی ہے انسانیت؟

ایک بات اور کہ 26 لاکھ آبادی والے شہر میں 2600 لوگ بھی انکا پرجوش استقبال نہ کرسکے،،،، کیا اس بے حسی کی وجہ سے ہم لوگ اپنی باری کا انتظار تو نہیں کررہے؟

قندِ مکرر

پیر، 10 فروری، 2014


ایک نشئی کا باپ فوت ہوگیا، لوگ اسکی وفات پر اکٹھا ہونا شروع ہوگئے، وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ جنازہ تیار ہوگیا مگر بیٹا نہ جانے کہاں غائب تھا، محلے داروں نے کچھ لوگوں کو دوڑایا کہ جا کر اس خبیث نشئی کو تلاش کرکے لاؤ۔

تلاش کرتے کرتے آخر کار ایک نوجوان نے اسے قبرستان میں نشہ کرتے دیکھ لیا اور اسے کہنے لگا،
''شرم کرو یار ادھر تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کرکے بیٹھے ہو؟
چلو جلدی سے گھر چلو اور اپنے باپ کی آخری رسومات ادا کرو۔

نشئی صاحب گرتے پڑتے گھر واپس آئے، ابا کو سپرد خاک کیا اور پھر غائب ہوگئے، ادھر مرگ والے گھر میں جیسے جیسے کسی کو پتہ چلتا وہ تعزیت کے لیئے آتا لیکن بیٹا غائب تھا اس لیئے تعزیت کس سے کی جاتی؟

چنانچہ محلے داروں نے ایک مرتبہ پھر اسکی تلاش شروع کی اور اسے پھر پکڑ لیا اور اسے شرم دلانے کی خاطر کہا،
'' تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کرکے پڑے ہو؟،،،
چلو گھر جاؤ ہم تمہیں لینے آئے ہیں''

نشئی نے نشے سے مغلوب آنکھیں تھوڑی سی وا کیں اور بولا،
ہیں ،،،
ابا فیر مرگیا اے؟

کیا سرمایہ داری فطری نطامِ معیشت ہے؟

پیر، 3 فروری، 2014


اس سوال کے جواب کے لیئے ہمیں واپس پتھر کے زمانے کی طرف سفر کرنا ہوگا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے دور دراز چھوٹی چھوٹی بستیاں بنا کر رہا کرتے تھے، اس دور میں آج کی طرح زندگی کوئی آسان نہیں تھی بلکہ انسان کو انتہائی مشکل اور خطرناک حالات میں زندہ رہنا پڑتا تھا، موسمی تغیرات سے لیکر جنگلی درندوں تک سے اسے خطرات لاحق تھے،، کبھی کبھار تو وہ شکار کرتے ہوئے خود بھی شکار ہوجایا کرتا مگر زندگی کی گاڑی رینگتی رینگتی آگے کی جانب سفر کرتی رہی۔

ان لوگوں کا سوشل سیٹ اپ (اگر میں غلطی پر نہیں تو) کچھ ایسا تھا کہ انکے مختلف گروپ بنا دئیے جاتے تھے جن میں سے ایک گروپ کاکام شکار کرنا، دوسرے کا کام کھیتی باڑی، تیسرے کا کام شکار اور حفاظتی نقطہء نظ
ر سے نت نئے ہتھیار بنانا، چوتھے کاکام گھروں میں مقیم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کرنا ہوا کرتا تھا۔

جب تمام گروپس شام کو اکھٹے ہوتے تو وہیں پر تمام شکار اور اجناس وغیرہ کی تقسیم کی جاتی اور ہر کسی کی ضرورت کے مطابق اسے سامان مہیا کردیا جاتا،،، اگر شکار کم ملا ہے تو اسی نسبت سے سب کا حصہ بھی کم ہوجایا کرتا اور زیادہ شکار ملنے کی صورت میں سب کی عیاشی ہوجاتی،،،
بستی یا قبیلے کے سردار کو بھی اسکی ضرورت کے مطابق برابر کا حصہ مل جایا کرتا اور اس طرح پتھر کا انسان بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آخر کار مہذب دنیا کا باسی کہلانے لگا،،

کیسی خوفناک حقیقت ہے کہ جب انسان ان پڑھ، وحشی اور گنوار تھا تب وہ انصاف سے کام لیکر ایک دوسرے کے ساتھ برابر کا حصہ پتی لیتا رہا مگر جیسے ہی اس کے عقل و شعور نے ترقی کی منازل طے کیں وہ آہستہ آہستہ اپنے ہی ہم جنسوں کا دشمن بنتا چلا گیا اور یہاں تک کہ انکے حصے کا رزق بھی خود ہی ذخیرہ کرلیا جس کی وجہ سے آج اس کرہ ارض پر انسانیت غربت کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہے۔

''رن مرید''

جمعرات، 30 جنوری، 2014


ایک شام دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے کا پروگرام بنا، خوب کنگھی شیشہ کرکے خوشبو وغیرہ لگا کے جب باہر جانے لگا تو والد مرحوم نے آواز دی،،،،،،
کہاں کے ارادے ہیں بیٹا جی،،،، بڑی تیاریاں شیاریاں کی ہیں؟

ہم نے جواب دیا کہ ابا جی منور ظریف کی نئی فلم آئی ہے ''رن مرید'' بس وہی دیکھنے جا رہا ہوں دوستوں کے ساتھ۔
ابا حضور مسکرائے اور فرمایا بیٹا تم شیشہ دیکھ لو اور تمہارے دوست تو روزانہ تم سے ملتے ہی رہتے ہیں اس لیئے سینما جا کر پیسے کیوں ضائع کرتے ہو؟

جب مرزا صاحب نے اپنی روئیداد مجھے سنائی تو میرے لیئے اپنا ''ہاسا'' ضبط کرنا مشکل ہوگیا، اوپر سے پوچھنے لگے کہ یار ابا حضور نے تو کوئی 25 سال پہلے یہ سب کچھ فرمایا تھا مگر آج سارے رشتے دار اور پورا محلہ میرے پیٹھ پیچھے مجھے رن مرید ہی کہتا ہے، اب تم ہی بتاؤ کی میں شکل سے تمہیں رن مرید لگتا ہوں؟
ارے نہیں مرزا صاحب،،، آپ تو شکل سے ازلی یتیم دکھائی دیتے ہیں،
جیل سے بھاگے ہوئے جیب کترے لگتے ہیں،
پکے فراڈئیے بھی دکھائی دیتے ہیں
مگر واللہ کہیں سے بھی آپ رن مرید تو ہرگز نہیں لگتے۔

یہ سن کر مرزا صاحب کے چہرے کی رونق کچھ بحال ہوئی جو رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے چور کی طرح ماند پڑ چکی تھی۔
مرزا صاحب کا دل رکھنے اور یاری نبھانے کی خاطر میں نے انہیں اس کیس سے بری تو کردیا لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہوا، ایک دوست کو دھوکے میں رکھنے پر ضمیر نے بڑی لعنت ملامت بھی کی مگر ہم نے فساد فی الارض کو بنیاد بنا کر ضمیر کی تمام چالوں کو ناکام بنا دیا۔

حقیقت تو کچھ یوں ہے کہ ہر شریف آدمی (نواز شریف کی بات نہیں ہو رہی) اپنی زوجہ کے ''تھلے'' لگا ہوتا ہے اور اسکی ہر بات ماننے پر اس لیئے مجبور ہے کہ گھریلو امن و امان اسکی بنیادی ضرورت ہے جس پر وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ اپنی اسی بچپن کی کمزوری کی وجہ سے ایسے ''شرفاء'' کو رن مرید کا خطاب ملتا ہے جو مہد سے لحد تک انکا پیچھا کرتا پایا جاتا ہے۔

خیر، میں نے مرزا ساحب سے پوچھا کہ بھائی یہ خطاب تو چند جیلس قسم کے لوگوں نے پچھلے 25 سال سے دے رکھا ہے مگر آپ کو اس بات پر آج کیوں غصہ آرہا ہے؟
مرزا صاحب نے فرمایا یار یہ سب لفڑا سلیمان نے کھڑا کیا ہے،
کون سلیمان؟،،، اچھا وہ تمہارا ہڈ حرام نوکر نا،،،،

ارے نہیں یار پوری بات تو سن لیا کرو، یہ سارا جھگڑا سلطان سلیمان کی وجہ سے اٹھا ہے،

سلطان سلیمان،،،، یہ کون ذاتِ شریف ہیں؟
تم نہیں جانتے یار؟،،،
عجیب گھامڑ آدمی ہو تم بھی،،،،
ارے یہ ''حُرم'' کے شوہر نامدار کی بات ہورہی ہے۔۔

ارے مرزا کیوں پہیلیاں بھجوا رہے ہوَ،،، سیدھی طرح بات بتاؤ،،،
ارے یار سلطان سلیمان آف ترکیہ شریف 3 براعظموں پر بلا شرکت غیرے حکومت کیا کرتا تھا اور اس کی ملکہ حُرم اس پر حکومت کرتی تھی،،،
ایسی سازشی ذہن کی مالکہ تھی وہ حرافہ کہ بادشاہ کے سارے وفاداروں کو ایک ایک کرکے خود بادشاہ کے ہاتھوں مروا دیتی ہے لیکن خود پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔

سلطان کی جملہ ملکائیں، کنیزیں اور شہزادیاں کیا گل کھلاتی پھرتی ہیں اسے کچھ پتہ نہیں، بس حرم کی باتوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتا ہے کم بخت۔،
بس کل رات یہی بات میں نے بچوں کے سامنے کہہ دی تو سارے کھی کھی کرکے ہنسنے لگے،،، میرے ڈانٹنے پر چھوٹے والے نے بتایا کہ ابا آپکو بھی سبھی رن مرید ہی کہا کرتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ میں اپنی''عزت'' کس طرح بحال کروں؟

یار مرزا چھوڑو اس عزت وزت کو،،،، پہلے تمہیں کونسا 32 توپوں کی سلامی ملا کرتی تھی؟
،بس تم ایسا کرو کہ میری طرف سے سلطان سلیمان آف ترکیہ شریف کی خدمت میں ایک مشورہ پیش کردو

مرزا نے پوچھا، کونسا مشورہ؟

یہی کہ اسکی محلاتی انٹیلی جنس بالکل فیل ہوچکی ہے اور اب اسے جدید بنیادوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تو؟

اس سے کہو کہ محل میں چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے لگوا لے، ورنہ بہت پچھتائے گا۔





وینا ملک کی رخصتی اور عوام الناس پر اس کے مضر اثرات

بدھ، 29 جنوری، 2014



پڑ گئی نا ٹھنڈ تمہارے دل میں ،،،،،،!
ہر وقت ہاتھ دھو کر اس عفیفہ کے پیچھے پڑے رہتے تھے، کیا تم جیسے نام نہاد لکھاری اور کیا دین فروش ملا، سبھی ایک سی ذہنیت کے مالک ہو،،،،!

ارے یار مرزا،،، !
آخر ہوا کیا ہے؟
ہمیں پتہ تو چلے کہ تم کیوں لٹھ لیکر میرے اور ملاؤں کے خلاف مذمتی قرارداد پاس کروانے کے چکر میں پڑ گئے ہو ؟؟

ارے واہ،،،،،
یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے اور تم تو ایسے معصوم بن رہے ہو جیسے کچھ جانتے ہی نہیں،

میں نے عرض کیا کہ،،،،،قسم ہے تمہارے اس منحوس سر کی جس میں بھیجے کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا، میں کچھ نہیں جانتا کہ تمہارے اول فول بکنے کے پیچھے کون کون سی علاقائی اور بین الاقوامی وجوہات کار فرما ہیں۔

مرزا صاحب نے ایک خشمگیں سی قہر آلود نگاہ مجھ پر ڈالی اور اخبار کی ایک خبر پر انگلی رکھ کر کہا اسے پڑھو،،،
یقین کیجئے کہ اس میں ایسی روح فرسا خبر تھی کہ میرے تو ہوش و حواس بالکل جاتے رہے،،،
ہاتھ شل ہوگئے اور میرے منہ سے بمشکل اتنا نکل پایا ،،،،
''پپ پپ ،،،، پانی''

خبر کچھ یوں تھی وینا ملک نے ''شو بز'' سے علیحدگی کا اعلان کردیا،،،،
یہ خبر ویسے ہی ناقابل یقین قسم کی خبر تھی کیونکہ ہم نے تو آج تک یہی سنا تھا کہ فلان ''عظیم'' فنکارہ نے اپنے شوہر، منگیتر وغیرہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا،،،

کئی دیسی اور ولائیتی ''فنکاراؤں'' کے کریڈٹ پر اس قسم کے کئی کئی حادثات موجود ہیں۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ذاتی طور پر بھی کسی ایسی ہی خبر کی توقع کررہے تھے،،،
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ہو بھی جائے تب بھی ہمارا چانس تو پوائنٹ زیرو زیرو زیرو پرسینٹ بھی نہیں بنتا۔ مگر کیا کہتے ہیں کہ

''دل ہے کہ مانتا نہیں''

ابھی تک یہ بات صیغہ ء راز میں ہے کہ یہ وینا جی کا ذاتی فیصلہ ہے یا ''خٹک'' صاحب کے شوہرانہ دباؤ کا نتیجہ،،،،
اگر تو یہ نازیبا حرکت خٹک صاحب کی ''دخل در نامعقولات'' کی وجہ سے ہوئی ہے تو ہم اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں،،کیونکہ اس ''باصلاحیت'' فنکارہ کا فن اس قدر بلندیوں کو چھو رہا تھا کہ یہ کسی قسم کی سرحدوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔

وینا جی کے شوبز چھوڑنے کے بعد یہ بازار بالکل مندا پڑ جائے گا, اب وہ رونقیں کہاں برپا ہونگی سوشل اور کمرشل میڈیا پر، جو صرف اور صرف وینا جی کے دم قدم سے تھیں؟

خاص طور پر ہمارے مولانا حضرات کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ انہیں اسی قسم کی ایک عدد ہیروئین تلاش کرنا پڑے گی جو وینا جی کی طرح '' سوشل'' ہو تاکہ وہ اسے بھی جلد از جلد دائرہ ء اسلام سے خارج کرسکیں۔

آخر میں تمام فیس بکیوں کی جانب سے وینا ملک کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمیں انکے آئندہ کے ''مذموم'' ارادوں سے سخت مایوسی ہوئی ہے اس لیئے ان سے درخواست ہے کہ وہ شو بز اور ہمیں چھوڑنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔۔

''بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

العــــــــــــــــــــــــرضــــــــــــــــــــــــــــــــــے
محسن رفیق

اٹھنی

جمعرات، 23 جنوری، 2014


جنرل ایوب خان نے جب پاکستان میں پہلی مرتبہ مارشل لاء لگایا تو اس زمانے میں لوگ اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ انہوں نے ذخیرہ کیا ہوا سارا مال منڈیوں میں پہنچا دیا، تانگے میں جتے ہوئے گھوڑوں کی پیٹھ کے ساتھ بوریاں باندھ دی گئیں تاکہ سڑکوں پر گندگی نہ گرے، سائیکلوں پر ڈائنمو لگا کر ہیڈ لائٹیں لگ گئیں، گوشت کی دکانوں پر مکھیوں سے بچاؤ کے لیئے جالیاں لگ گئیں، سڑکوں پر صبح شام ماشکی پانی کا چھڑکاؤ کیا کرتے تاکہ گرد نہ اڑے، گویا تمام خرابیاں چند ہی دنوں میں ختم ہوگئیں اور یوں لگنے لگا کہ شائد پاکستانی ایک قوم بن جائیں گے۔ یہ الگ بات کے چند ہی ماہ کے بعد فوج کا سارا رعب و دبدبہ ختم ہوگیا اور نہ صرف پہلے موجود برائیاں دوبارہ عود کرآئیں بلکہ ان میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا جو کہ کسی المئیے سے کم نہیں۔

خیر یہ تو جملہء معترضہ تھا، ہم اصل واقعے کی طرف آتے ہیں۔
فوجی افسران ہر شعبہء زندگی میں خرابیوں کو تلاش کرتے اور انکی اصلاح کے لیئے موقع پر احکامات جاری کیئے جاتے، ایک دن ایک کیپٹن صاحب مسافر بسوں کو روک کر انکی چیکنگ کر رہے تھے کہ ایک بس میں انہیں پانی کا ایک مٹکا پڑا نطر آیا،
ڈرائیور سے پوچھا گیا کہ ایک بس میں مٹکے کا کیا کام، ڈرائیور نے بتایا کہ خود اسے بھی بہت پیاس لگتی ہے اس لیئے پانی کا مٹکا بس میں رکھ لیتا ہوں جس سے دوسرے مسافر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں،
کیپٹن صاحب نے اسے شاباش دی، اسکا کندھا تھپتھپایا اور جانے کی اجازت دے دی،

سنا ہے کہ اسکے بعد جتنی بھی بسیں روکی گئیں ان سے پوچھا گیا کہ ''پانی والا مٹکا کدھر ہے' چنانچہ ان میں مٹکے کی عدم موجودگی پا کر سب کو جرمانہ کردیا گیا، کئی ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کو حوالات کی سیر بھی کرنا پڑی۔

اسی طرح اس زمانے کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ ایک کیپٹن صاحب کسی گاؤں میں پہنچے اور مویشیوں کو دی جانے والی خوراک کے بارے میں استفسار کیا ،

گاؤں کے چوہدری نے بتایا کہ اسکے اپنے کھیت ہیں جہاں ان جانوروں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور شام کو وہ کھا پی کر واپس آجاتے ہیں، کیپٹن صاحب نے اعتراض کیا کہ تم انکی خوراک میں کھل اور ونڈا ملا کر کیوں نہیں کھلاتے؟
اس لیئے تمہیں انکی صحت کے حوالے سے غفلت برتنے پر1000 روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔

پھجے مراثی کی باری آئی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم بتاؤ تم اپنی ککڑیوں (مرغیوں) کو کیا کھلاتے ہو؟

پھجا ڈر گیا کہ اگر جرمانہ ہوگیا تو وہ کہاں سے ادا کرے گا چنانچہ کہنے لگا،

سرکار ،،،،،!
آپ ان ککڑیوں سے ہی پوچھ لیں کہ وہ کیا کھاتی ہیں، میں تو صبح انہیں گھر سے نکلتے ہوئے ایک ایک اٹھنی تھما دیتا ہوں۔

محسن رفیق