امکانی سانحہء ارتحال

بدھ، 19 فروری، 2014


یقیناً یہ روح فرسا اور المناک خبر صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ سارے عالم اسلام میں بڑے دکھ اور گہرے رنج و الم
کے ساتھ سنی جائے گی کہ اپنے مشہور و معروف کنٹینر برانڈ شیخ الاسلام جناب علامہ طاہر القادری کی عمر مبارک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کے برابر یعنی 63 برس ہوگئی ہے اس طرح ان کے دن (انکی اپنی بشارت کے مطابق) پورے
ہوگئے ہیں اور اب وہ کسی بھی وقت بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مرحوم و مغفور ہو سکتے ہیں۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

سنا ہے کہ ان کے گھر میں فاتحہ خوانی کے تمام انتظامات مکمل کرلیئے گئے ہیں، آئیت کریمہ اور ''گِٹکیں'' پڑھنے والے ملاؤں کی بھی کرایہ پر بکنگ کر لی گئی ہے، اب اگر دیر سویر ہے تو صرف علامہ صاحب کی طرف سے ہے۔

زرا سوچئیے کہ شیخ الاسلام کی وفات حسرت آیات کے بعد پاکستان کچھ سونا سونا سا نہیں لگنے لگے گا؟
ان کے دم سے گلشن میں جو بہاریں تھیں، جو رونق میلہ تھا وہ انکے ساتھ ہی عنقا ہو جائیں گی، میڈیا بھی 4 دن انکی یاد میں پروگرام پیش کرے گا اور پھر دستور زمانہ پر عمل کرتے ہوئے بھول جائے گا،
یقین کیجئیے ایسی باتیں سوچتے ہوئے ہمارا تو کلیجہ منہ کو آرہا ہے مگر کیا کیجئے کہ واپسی کا وعدہ برحق ہے اور اس پر چار و ناچار عمل تو کرنا ہی ہوگا۔

''موت سے کس کو رستگاری ہے''

'' ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر انکی جگہ تخت نشین ،،، معاف کیجئیے گا، گدی نشین ہونی والی شخصیت میں ان جیسی ''خوبیاں نہ ہوئیں تو ہر سال اسلام آباد میلہ کون لگایا کرے گا۔ علامہ صاحب کو چاہئیے کہ وہ جاتے جاتے اپنے جانشین کو وصیت کرتے جائیں کہ انکی برسی ہر سال شاہراہ دستور پر دھرنا دیکر منائی جائے۔

چونکہ ابھی تک شیخ الاسلام نے اپنی عمر میں ایکسٹینشن کی کوئی بشارت نہیں سنائی اس لیئے ہم نے انکی پرانی پیشین گوئی کی بنیاد پر یہ پوسٹ لکھی ہے، البتہ عمر میں توسیع کی خبر آئی تو اس پوسٹ کو کینسل سمجھا جائے کیونکہ علامہ صاحب کی پیشین گوئیاں اور بشارتیں حیرت انگیز طور پر اوپر سے نازل ہوتی ہیں اس لیئے ہم جیسے زمینی باشندوں کو ان پر اعتراض کرکے خدائی اور ''شیخائی'' کاموں میں مداخلت سے باز رہنا چاہئیے۔

افسوس کا مقام

پیر، 17 فروری، 2014


کل بلوچستان سے ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرکے آنے والا قافلہ گوجرانوالہ میں وارد ہوا، اس قافلے میں ایک ماما قدیر دو عدد بچے اور 9 خواتین تھیں، جو ایک ہتھ ریڑھی پر اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائے شہروں شہروں گھوم کر اس قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ رہی ہیں۔

ہمیں ان کے سیاسی نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، ہم اس مسئلہ کو انسانی نکتہء نگاہ سے دیکھتے ہیں،، ویسے بھی پنجاب کی پمیشہ سے روائت رہی ہے کہ ہم لوگ بیٹیوں کے معاملے میں بہت جذباتی ہیں،

اس سلسہ میں بھی ہمارا موقف بالکل واضع ہے کہ جن لوگوں کو غائب کیا گیا ہے، یا وہ از خود غائب ہوئے ہیں، انہیں بازیاب کروا کے عدالتوں میں پیش کیا جائے،

آج کی دنیا میں اس قسم کے ظلم کو روا رکھنا کسی بھی طرح جائز نہیں سمجھا جا سکتا، اس وقت مجھے انتہائی دکھ اور افسوس ہوا جن پاکستان کی کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور ان پارٹیوں کا ایک بھی کارکن قافلے کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیئے نہیں پہنچا۔

جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر ملاؤں نے بھی عملاً ان کے استقبال کا بائیکاٹ کیا، سب سے زیادہ دکھ لیفٹ کے کامریڈز کے روئیے پر ہوا جو ہر سانس کے ساتھ انقلاب کی بات کرتے ہیں لیکن مسنگ پرسنز کا استقبال کرنے میں ان کا بھی پیشاب خطا ہو گیا۔

صرف دو پارٹیوں نے اس کام میں حصہ لیا،
1: تکمیل پاکستان موومنٹ
2: ورکرز پارٹی

یہ دونوں پارٹیاں مزدوروں اور محنت کشوں کے تحفظ کے لیئے ہمیشہ کمر بستہ رہتی ہیں اور کل کے اس ایونٹ کو انہوں نے مل کر پورا کیا، گوجرانوالہ کے چند ترقی پسند دانشوروں نے البتہ اپنی حاضری لگوائی جس سے ہمارا دکھ کسی حد تک کم ہوگیا۔

ہم مشکور ہیں جناب محمد اسرائیل رانا ایڈووکیٹ کے جنہوں نے چن دا قلعہ بائیپاس سے لیکر پی ڈبلیو ڈی ہال تک قافلے کی رہنمائی کی اور انہیں دو مرتبہ ڈی ٹریک کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا،،، اسی کے ساتھ علامہ فاروق عالم انصاری صاحب کے بھی بے حد مشکور ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ آخری ھد تک تعاون کیا، اسی طرح ڈاکٹر عمر نصر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں، وہ اپنی صھافی ذمہ داریوں کی وجہ سے صرف ایک مرتبہ آکر واپس چلے گئے لیکن انکی بھرپور شرکت ہوگئی۔

یادش بخیر ابھی چند دن پہلے ایم کیو ایم کے ایک کارکن پر پولیس نے تشدد کیا اور انہوں نے ہڑتال کرکے سارا شہر بلاک کردیا،،، پیں پوچھتا ہوں کہ کیا بلوچ اسی قدر لاوارث ہیں کہ انکے لیئے کوئی آواز بلند نہیں ہوتی، میڈیا انکا بلیک آؤٹ کررہا ہے، راستے میں انہیں طرح طرح سے ستایا جاتا ہے،،،، کیا یہی ہے انسانیت؟

ایک بات اور کہ 26 لاکھ آبادی والے شہر میں 2600 لوگ بھی انکا پرجوش استقبال نہ کرسکے،،،، کیا اس بے حسی کی وجہ سے ہم لوگ اپنی باری کا انتظار تو نہیں کررہے؟

قندِ مکرر

پیر، 10 فروری، 2014


ایک نشئی کا باپ فوت ہوگیا، لوگ اسکی وفات پر اکٹھا ہونا شروع ہوگئے، وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ جنازہ تیار ہوگیا مگر بیٹا نہ جانے کہاں غائب تھا، محلے داروں نے کچھ لوگوں کو دوڑایا کہ جا کر اس خبیث نشئی کو تلاش کرکے لاؤ۔

تلاش کرتے کرتے آخر کار ایک نوجوان نے اسے قبرستان میں نشہ کرتے دیکھ لیا اور اسے کہنے لگا،
''شرم کرو یار ادھر تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کرکے بیٹھے ہو؟
چلو جلدی سے گھر چلو اور اپنے باپ کی آخری رسومات ادا کرو۔

نشئی صاحب گرتے پڑتے گھر واپس آئے، ابا کو سپرد خاک کیا اور پھر غائب ہوگئے، ادھر مرگ والے گھر میں جیسے جیسے کسی کو پتہ چلتا وہ تعزیت کے لیئے آتا لیکن بیٹا غائب تھا اس لیئے تعزیت کس سے کی جاتی؟

چنانچہ محلے داروں نے ایک مرتبہ پھر اسکی تلاش شروع کی اور اسے پھر پکڑ لیا اور اسے شرم دلانے کی خاطر کہا،
'' تمہارا باپ مر گیا ہے اور تم یہاں نشہ کرکے پڑے ہو؟،،،
چلو گھر جاؤ ہم تمہیں لینے آئے ہیں''

نشئی نے نشے سے مغلوب آنکھیں تھوڑی سی وا کیں اور بولا،
ہیں ،،،
ابا فیر مرگیا اے؟

کیا سرمایہ داری فطری نطامِ معیشت ہے؟

پیر، 3 فروری، 2014


اس سوال کے جواب کے لیئے ہمیں واپس پتھر کے زمانے کی طرف سفر کرنا ہوگا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ ایک دوسرے سے دور دراز چھوٹی چھوٹی بستیاں بنا کر رہا کرتے تھے، اس دور میں آج کی طرح زندگی کوئی آسان نہیں تھی بلکہ انسان کو انتہائی مشکل اور خطرناک حالات میں زندہ رہنا پڑتا تھا، موسمی تغیرات سے لیکر جنگلی درندوں تک سے اسے خطرات لاحق تھے،، کبھی کبھار تو وہ شکار کرتے ہوئے خود بھی شکار ہوجایا کرتا مگر زندگی کی گاڑی رینگتی رینگتی آگے کی جانب سفر کرتی رہی۔

ان لوگوں کا سوشل سیٹ اپ (اگر میں غلطی پر نہیں تو) کچھ ایسا تھا کہ انکے مختلف گروپ بنا دئیے جاتے تھے جن میں سے ایک گروپ کاکام شکار کرنا، دوسرے کا کام کھیتی باڑی، تیسرے کا کام شکار اور حفاظتی نقطہء نظ
ر سے نت نئے ہتھیار بنانا، چوتھے کاکام گھروں میں مقیم عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی حفاظت کرنا ہوا کرتا تھا۔

جب تمام گروپس شام کو اکھٹے ہوتے تو وہیں پر تمام شکار اور اجناس وغیرہ کی تقسیم کی جاتی اور ہر کسی کی ضرورت کے مطابق اسے سامان مہیا کردیا جاتا،،، اگر شکار کم ملا ہے تو اسی نسبت سے سب کا حصہ بھی کم ہوجایا کرتا اور زیادہ شکار ملنے کی صورت میں سب کی عیاشی ہوجاتی،،،
بستی یا قبیلے کے سردار کو بھی اسکی ضرورت کے مطابق برابر کا حصہ مل جایا کرتا اور اس طرح پتھر کا انسان بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آخر کار مہذب دنیا کا باسی کہلانے لگا،،

کیسی خوفناک حقیقت ہے کہ جب انسان ان پڑھ، وحشی اور گنوار تھا تب وہ انصاف سے کام لیکر ایک دوسرے کے ساتھ برابر کا حصہ پتی لیتا رہا مگر جیسے ہی اس کے عقل و شعور نے ترقی کی منازل طے کیں وہ آہستہ آہستہ اپنے ہی ہم جنسوں کا دشمن بنتا چلا گیا اور یہاں تک کہ انکے حصے کا رزق بھی خود ہی ذخیرہ کرلیا جس کی وجہ سے آج اس کرہ ارض پر انسانیت غربت کے بوجھ تلے دب کر سسک رہی ہے۔